تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
چین اور علاقہ ماوراء النہر کے درمیان ایک درہ کوہ سے ترکوں کے قبائل نے جو ملک خطا کے رہنے والے تھے خروج کیا اور طغا خان والی ترکستان کے علاقہ میں لوٹ مار اور قتل و غارت کا بازار گرم کر دیا‘ طغا خان نے بلاد اسلامیہ سے فوج جمع کر کے ایک لاکھ بیس ہزار کے لشکر سے ان کا مقابلہ اور تعاقب شروع کیا‘ اپنے علاقہ سے نکل کر پہاڑوں کے درے اور تنگ گذر گاہیں عبور کر کے تین مہینے کی مسافت پر پہنچ کر ان کو جا لیا اور دو لاکھ آدمیوں کو قتل کر کے واپس ہوا‘ اس طرح ان ترکوں کو جنہیں مغل کہنا چاہیئے اچھی طرح نصیحت ہو گئی۔ یہ واقعہ ۴۰۸ھ میں وقوع پذیر ہوا۔ سلطان الدولہ نے اپنے بھائی مشرف الدولہ کو عراق کا گورنر بنا دیا تھا‘ مشرف الدولہ نے عراق میں سلطان کو موقوف کر کے اپنے نام کا خطبہ پڑھوانا شروع کر دیا اور سلطان الدولہ کو معزول کر دیا‘ یہ واقعہ ۴۱۱ھ میں واقع ہوا۔ مشرف الدولہ کی حکومت مشرف الدولہ کی حکومت و امارت کو جب سب دیلمی سرداروں نے جو عراق میں موجود تھے منظور کر لیا تو سلطان الدولہ نے اپنے بیٹے ابو کالیجار کو فوج دے کر روانہ کیا‘ ابو کالیجار نے اہواز پر قبضہ کر لیا‘ چند معرکہ آرائیوں کے بعد ۴۱۲ھ میں یہ فیصلہ ہوا کہ عراق پر مشرف الدولہ کی حکومت رہے اور فارس سلطان الدولہ کے قبضے میں رہے‘ ۴۱۴ھ میں کوفہ کے اندر شیعوں اور سنیوں میں سخت فساد ہوا اور اس فساد کے شعلے بغداد تک بھی پہنچے اور یہاں بھی فساد برپا ہو گیا۔ دیلمی جو قابو یافتہ تھے شیعہ تھے‘ خلیفہ جو کوئی طاقت نہ رکھتا تھا سنی تھا‘ ترکوں کی آبادی بغداد و سامرا میں کافی تھی‘ ترک بھی سب سنی تھے اور اسی بنا پر خلیفہ کے احکام کی تعمیل ضروری سمجھتے تھے‘ خلیفہ قادر نے ان تمام حالات پر خوب غور کر کے سنیوں کی حمایت اور امداد میں کئی مرتبہ جرئات سے کام لیا اور شیعوں کو ان کی ناشدنی حرکات سے روکا‘ اس طرح ترکوں اور بغداد کے سینوں کی ایک معقول تعداد خلیفہ قادر باللہ کی حامی تھی اور یہی وجہ تھی کہ خلیفہ قادر باللہ نے کچھ نہ کچھ رعب و وقار حاصل کیا‘ ماہ ربیع الاول ۴۱۶ھ میں مشرف الدولہ نے اپنی حکومت کے پانچویں سال وفات پائی اور اس کی جگہ اس کا بھائی ابو طاہر جلال الدولہ والی بصرہ مسند نشین ہوا۔ جلال الدولہ کی حکومت مشرف الدولہ کی وفات کے بعد بغداد میں جلال الدولہ کے نام کا خطبہ پڑھا گیا‘ جلال الدولہ بصرہ سے روانہ ہو کر بجائے بغداد آنے کے واسط چلا گیا‘ اس پر بغداد والوں نے اس کا نام خطبہ سے خارج کر کے اس کے بھتیجے ابو کالیجار بن سلطان الدولہ کا نام خطبہ میں داخل کر دیا‘ ابو کالیجار اس زمانہ میں اپنے چچا ابو الفوارس سے کرمان میں جنگ آزما تھا‘ اہل بغداد نے ابو کالیجار کو بغداد طلب کیا لیکن وہ بغداد نہ آ سکا‘ یہ سن کر جلال الدولہ واسط سے بغداد کی طرف روانہ ہوا۔ بغداد کی فوجوں نے اس کو بغداد میں داخل نہیں ہونے دیا اور شکست دے کر واپس کر دیا‘ جلال الدولہ پھر بصرہ چلا گیا۔ جب اہل بغداد کو ابو کالیجار کے آنے سے مایوسی ہوئی تو خراسانیوں ترکوں اور دیلمیوں نے مل کر یہ مشورہ کیا کہ جلال الدولہ کے واپس کر دینے کے بعد اب بہت زیادہ ممکن کہ کوئی کر دیا عرب سردار بغداد پر مستولی ہو جائے‘ اگر کوئی عرب مستولی ہو گیا تو پھر ترکوں یا دیلمیوں کا بغداد پر قبضہ غیر ممکن ہو جائے گا اور عربوں کی حکومت