تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
قیدیوں کو مسلمانوں کی قید سے آزاد کرا لیں اور اس کے معاوضہ میں مسلمانوں کو جو ان کی قید میں ہیں آزاد کر دیں۔ یہ سب سے پہلی صلح دولت عباسیہ کی رومیوں کے ساتھ ہوئی۔ مقام لامس سے جو طراسوس سے بارہ فرسنگ کے فاصلے پر تھا‘ علماء و اعیان سلطان ادرئیس ہزار فوج معہ باشندگان سرحد جمع ہوئے۔ والی طراسوس بھی آیا اور ہارون الرشید کے بیٹے قاسم المعروف بہ موتمن کے زیر اہتمام ایک بڑی شاندار مجلس منعقد ہوئی۔ رومی مسلمان قیدیوں کو جن کی تعداد تین ہزار سات سو تھی‘ لے کر آئے‘ ان کے معاوضہ میں موتمن نے عیسائی قیدیوں کو ان کے سپرد کر دیا۔ اسی سال ہرثمہ بن اعین افریقہ کی گورنری سے مستعفی ہو کر بغداد آیا اور ہارون الرشید کے رکابی دستہ فوج کا افسر مقرر ہوا‘ اور محمد بن مقاتل بن حکیم افریقہ کی گورنری پر بھیجا گیا۔ مامون کی ولی عہدی اوپر ذکر ہو چکا ہے کہ ہارون الرشید نے ۱۷۵ھ میں اپنے بیٹے امین بن زبیدہ خاتون کو اپنا ولی عہد بنایا تھا‘ اس وقت امین اور مامون دونوں کی عمر پانچ پانچ سال کی تھی‘ ایسی چھوٹی عمر میں آج تک کوئی ولی عہد کسی مسلمان فرما نروا نے نہیں بنایا تھا۔ اب ہارون نے ۱۸۲ھ میں اپنے بیٹے مامون بن مراجل کو جبکہ اس کی عمر بارہ سال کی تھی امین کے بعد ولی عہد بنایا یعنی لوگوں سے اس بات کی بیعت لی کہ امین کے بعد مامون تخت خلافت کا مالک ہو گا۔ مامون کا اصل نام عبداللہ اور امین کا اصل نام محمد تھا۔ جب محمد کو ۱۷۵ھ میں ولی عہد بنایا تھا تو اس کو امین کا خطاب دیا تھا‘ اور اب عبداللہ کو ولی عہد دوم مقرر کیا تو اس کو مامون کا خطاب دیا اور خراسان نیز اس کے ملحقہ علاقہ یعنی ہمدان تک کی سند گورنری مامون کو عطا کر کے عیسیٰ بن علی گورنر خراسان کو طلب کیا۔ جب وہ آ گیا تو مامون کی طرف سے اس کو خراسان کی حکومت کی سند دے کر خراسان کی جانب واپس کر دیا۔ اسی سال یعنی ۲۷۔ رجب ۱۸۲ھ کو امام ابو یوسف نے جن کا نام یعقوب تھا اور امام ابو حنیفہ کے شاگرد اور بغداد کے رئیس القضاۃ تھے وفات پائی۔ وہب بن عبداللہ نسائی اور حمزہ خارجی کا خروج جب عیسیٰ بن علی‘ مامون الرشید کی تقریب ولی عہدی کے سلسلہ میں بغداد کی طرف آیا تو ابو خصیب وہب بن عبداللہ بن نسائی نے علم بغاوت بلند کر کے خراسان میں لوٹ مار شروع کر دی۔ جب عیسیٰ بن علی نے واپس جا کر اس کا تعاقب کیا تو وہب نے خائف ہو کر امان طلب کی۔ چنانچہ اس کو امان دے دی گئی اور وہ خاموش ہو کر بیٹھ گیا۔ اس واقعہ کے بعد ہی یہ خبر مشہور ہوئی کہ بلاد باد غیس میں حمزہ بن اترک خارجی نے خروج کیا ہے اور شہروں پر قبضہ کرتا چلا جاتا ہے۔ ہرات میں ان دنوں عمرویہ بن یزید ازدی عامل تھا اس نے چھ ہزار سواروں کی جمعیت لے کر حمزہ پر حملہ کیا۔ حمزہ نے اس کو شکست دے کر اس کے بہت سے سواروں کو قتل کر ڈالا اور اسی ہنگامہ میں عمرویہ بھی کچل کر مر گیا۔ یہ سن کر علی بن عیسیٰ نے اپنے لڑکے حسن بن علی کو دس ہزار فوج دے کر حمزہ کے مقابلہ کو روانہ کیا مگر حسن نے حمزہ کا مقابلہ نہ کیا۔ تب علی بن عیسیٰ نے اپنے دوسرے بیٹے عیسیٰ بن علی کو مامور کیا۔ مقابلہ ہوا اور حمزہ نے عیسیٰ بن علی کو شکست دے کر بھگا دیا۔ علی بن عیسیٰ نے عیسیٰ بن علی کو دوبارہ تازہ دم فوج دے کر پھر حمزہ کے مقابلہ پر