تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کہ اکثر بڑے بڑے علماء کو ثواب سمجھ کر اس نے اپنے ہاتھ سے قتل کیا۔۱؎ آخر عمر میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا کہ مسئلہ خلق قرآن کے متعلق اس نے اپنی سرگرمی کم یا بالکل موقوف کر دی تھی۔ وہ واقعہ یہ تھا کہ ابو عبدالرحمن عبداللہ بن محمد ازدی جو امام ابو دائود اور نسائی کے استاد تھے مسئلہ خلق قرآن کے متعلق مخالف عقیدہ رکھنے کے سبب گرفتار ہو کر آئے اور دربار میں پیش ہوئے‘ وہاں قاضی احمد بن ابی دئواد سے‘ جو معتصم کے زمانے سے دربار میں وزیراعظم کے برابر مرتبہ رکھتے اور خلق قرآن کے قائل تھے‘ اس مسئلہ میں بحث ہوئی۔ ابو عبدالرحمن نے ان سے سوال کیا کہ تم پہلے مجھ کو یہ تو بتا دو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو بھی اس کا علم تھا یا نہیں کہ قرآن مخلوق ہے۔ قاضی احمد نے کہا کہ ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اس کا علم تھا۔۲؎ ابو عبدالرحمن نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگوں کو قرآن کے مخلوق ہونے کے عقیدہ کی تعلیم دی یا نہیں۔ قاضی احمد نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تو اس کے متعلق کوئی حکم نہیں فرمایا۔ ابو عبدالرحمن نے کہا کہ جس عقیدہ کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگوں کو تعلیم نہیں دی اور باوجود علم رکھنے کے لوگوں کو اس کے ماننے پر مجبور نہیں کیا۔ تم اس کے متعلق لوگوں کی خاموشی کو کیوں کافی نہیں سمجھتے؟ اور ان کو کیوں اس کے ماننے اور اقرار کرنے پر مجبور کرتے ہو؟ یہ سنتے ہی واثق باللہ چونک پڑا اور دربار سے اٹھ کر اپنی محل سرائے میں چلا گیا۔ اور چار پائی پر لیٹ کر بار بار یہ کہتا رہا کہ ’’جس معاملے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خاموشی اختیار کی ہم اس میں سختی کر رہے ہیں‘‘۔ پھر حکم دیا کہ ابو عبدالرحمن کو آزاد کر کے اس کے وطن میں بہ آرام واپس پہنچا دو۔ اور تین سو دینار سرخ بطور انعام دے دو۔ ۱؎ کس قدر افسوس ناک بات ہے کہ ایک طرف واثق باللہ قرآن کریم کو مخلوق مان کر ایک صریح غلطی اور گمراہی اختیار کر چکا تھا‘ دوسری طرف اس نے بہت سے بڑے علماء کو قتل کرنے جیسا جرم اور گناہ کبیرہ کیا۔ ۲؎ قاضی احمد بن ابی دائود نے یہ بالکل غلط بات کہی۔ اگر جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اس مسئلہ کا علم تھا تو پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو صحابہ رضی اللہ عنھم کو اس بارے میں رہنمائی کرنی چاہیے تھی۔ ابو حرب و اہل دمشق خلیفہ معتصم کے حالات میں اوپر ذکر ہو چکا ہے کہ رجاء بن ایوب کو معتصم نے ابو حرب یمانی کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا تھا۔ رجاء بن ایوب نے کچھ دنوں انتظار کرنے کے بعد ابو حرب سے لڑائی کا سلسلہ جاری کیا۔ اسی اثناء میں معتصم باللہ نے وفات پائی اور واثق باللہ تخت نشین ہوا۔ وفات معتصم کی خبر سنتے ہی اہل دمشق باغی ہو گئے‘ انہوں نے اپنے امیر کو دارالامارت میں محصور کر لیا۔ اور لشکر کی فراہمی و ترتیب میں مصروف ہو کر جمعیت کثیر فراہم کر لی۔ یہ خبر سنتے ہی واثق باللہ نے رجاء بن ایوب کے پاس حکم بھیجا کہ پہلے اہل دمشق کی خبر لو۔ اس وقت رجاء بن ایوب مقام رملہ میں ابو حرب کے مقابل معرکہ آرائی میں مصروف تھا۔ اس حکم کی تعمیل میں اس نے بہت تھوڑی سی فوج ابو حرب کے مقابلہ پر