تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
روانہ ہوا اور مصعب بن زبیر بصرہ میں آکر ملا‘ مہلب بن ابی صفرہ کے پاس سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کا خط بھی براہ راست پہنچ چکا تھا‘ کہ تم بصرہ میں مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہ سے آکر ملو اور کوفہ پر حملہ کرو‘ مہلب کو کسی قدر توقف ہوا تو مصعب کو بصرہ سے قاصد بھیجنا پڑا۔ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما شاید کوفہ پر چڑھائی کرنے میں ابھی اور تامل فرماتے‘ لیکن مختار نے جب کوفہ میں لوگوں کو بڑی کثرت سے قتل کیا اور یہ بھی مشہور کیا کہ میرے پاس جبرائیل امین آتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی لاتا ہے‘ اور میں بطور نبی مبعوث ہوا ہوں‘ تو لوگ شہر چھوڑ چھوڑ کر بھاگے‘ کچھ تو بصرہ کی طرف گئے‘ بعض سیدھے سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کے پاس پہنچے‘ اور مختار کی نبوت کا حال بھی علاوہ مظالم کے سنایا‘ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما نے یہ سن کر کہ مختار نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے اس کے استیصال میں توقف کرنا کسی طرح مناسب نہ سمجھا اور مہلب کو خط لکھا اور مصعب کو تاکید کی کہ بصرہ میں جا کر بغیر مہلب کے آئے ہوئے کوفہ پر حملہ آور نہ ہونا۔ مختار کا قتل اور کوفہ پر قبضہ جب مہلب آگیا‘ تو مصعب بن زبیر رضی اللہ عنھما نے اس کو حکم دیا کہ حبر اکبر پر اپنے لشکر کو مرتب کرو‘ عبدالرحمن بن احنف کو کوفہ کی طرف روانہ کیا کہ وہاں جا کر قیام کرو اور پوشیدہ طور پر لوگوں سے سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کے نام پر بیعت لو‘ عباد بن حصین حطمی تمیمی کو مقدمۃ الجیش کا افسر بنایا‘ میمنہ پر عمر بن عبیداللہ بن معمر کو اور میسرہ پر مہلب بن ابی صفرہ کو مامور کیا اور قلب لشکر کی سرداری خود معصب بن زبیر رضی اللہ عنھما نے اپنے پاس رکھی‘ اس طرح یہ لشکر مرتب ہو کر بصرہ سے کوفہ کی جانب روانہ ہوا۔ مختار کو جب اس فوج کشی کا حال معلوم ہوا تو وہ بھی فوج لے کر کوفہ سے نکلا‘ ابراہیم بن مالک اس زمانہ میں موصل کی حکومت پر مامور تھا اور وہ کوفہ نہیں آسکا تھا‘ بصرہ کی فوج میں ایک دستہ فوج ان لوگوں کا تھا‘ جو کوفہ سے بھاگ کر بصرہ پہنچے تھے‘ اس دستہ فوج کی سرداری محمد بن الاشعت کو دی گئی تھی‘ دونوں فوجوں کا مدارا نامی گائوں کے قریب مقابلہ ہوا خوب زور شور کی لڑائی ہوئی‘ آخر مختار کو شکست ہوئی اور وہ فرار ہو کر کوفہ میں داخل ہوا‘ قصر امارت کی مضبوطی کر کے محصور ہو بیٹھا۔ میدان جنگ سے جب کوفی لشکر بھاگا تو محمد بن الاشعت نے فراریوں کا تعاقب کیا اور بھاگتے ہوئوں کو دور تک قتل کرتا چلا گیا‘ مصعب بن زبیر رضی اللہ عنھما نے دارالامارۃ کا محاصرہ کر لیا یہ محاصرہ کئی روز تک جاری رہا‘ مختار کے ساتھ ایک ہزار آدمی قصر کے اندر محصور تھے‘ آخر سامان رسد کی کمی سے مجبور ہو کر مختار نے قلعہ کا دروازہ کھولنے اور مقابلہ کر کے مرنے کا ارادہ کیا‘ اس کے ہمراہیوں نے اس کو منع کیا اور مشورہ دیا کہ مصعب سے جان کی امان طلب کر کے دروازہ کھولو‘ یقین ہے کہ مصعب بن زبیر ضرور امان دے گا‘ لیکن مختار نے اس مشورے کو ناپسند کیا‘ سر میں خوشبودار تیل ڈالا‘ کپڑوں کو عطر ملا‘ اور ہتھیار لگا کر قصر سے نکلا‘ صرف انیس آدمیوں نے اس کا ساتھ دیا‘ باقی قصر کے اندر ہی رہے‘ مختار نے نکل کر حملہ کیا اور طرفہ و طراف پسران عبداللہ بن دجاجہ صیفی کے ہاتھ سے مارا گیا۔ مختار ۱۴ رمضان المبارک ۶۷ھ کو مقتول ہوا‘ مختار کے ہمرائیوں میں عبیداللہ بن علی بن