تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نکال دیا گیا۔ بصرہ کی جب یہ پریشان کن خبریں کوفہ میں پہنچیں اور حالات کا صحیح علم ہوا‘ تو ناممکن تھا کہ مصعب بن زبیر رضی اللہ عنھما خاموش بیٹھے رہتے۔ بصرہ کی ایسی تشویشناک حالت سن کر مصعب بن زبیر رضی اللہ عنھما کوفہ سے بصرہ آئے‘ اور وہاں خالد کے ہمراہیوں اور ہم خیالوں کو سزائیں دیں‘ جرمانے کئے‘ بعض کے مکانات منہدم کرا دیئے‘ اسی طرح کوفہ میں بھی اندر ہی اندر عبدالملک کے لوگ اپنا کام کر رہے تھے۔ سب سے بڑی مصیبت یہ تھی کہ فوجی سردار مثلاً عتاب بن ورقاء وغیرہ بھی اندرونی طور پر عبدالملک سے ساز باز کر چکے تھے۔ ایک طرف عبدالملک نے فوجی تیاریاں شروع کیں‘ تو دوسری طرف کوفہ و بصرہ کی فوجوں میں بغاوت کی سازشیں بڑے بڑے لالچ دے کر پھیلا دیں‘ چنانچہ ایک مرتبہ ابراہیم بن اشتر کے پاس عبدالملک بن مروان کا ایک سر بمہر خط آیا‘ ابراہیم جانتا تھا کہ اس میں کیا لکھا ہو گا اس نے اس خط کے لفافے کو کھولے بغیر بجنسہ مصعب کی خدمت میں پیش کر دیا‘ مصعب نے اس کو کھول کر پڑھا‘ تو اس میں عبدالملک نے ابراہیم کو لکھا تھا کہ تم میرے پاس چلے آئو‘ میں تم کو تمام ملک عراق کا گورنر مقرر کر دوں گا۔ مصعب نے ابراہیم سے کہا ‘ کہ کیا تم جیسا شخص بھی ایسے فقروں میں آسکتا ہے‘ ابراہیم نے کہا‘ کہ میں تو کبھی غدر و خیانت نہ کروں گا‘ لیکن عبدالملک نے آپ کے تمام سرداروں کو اسی قسم کے خطوط لکھے ہیں‘ اگر آپ میری رائے مانتے ہیں‘ تو ان تمام سرداروں کو قتل یا قید کر دیں‘ مصعب نے اس رائے کو ناپسند فرمایا‘ اور اپنے کسی سردار سے نہ کچھ دریافت کیا‘ نہ کچھ مواخذہ کیا۔ مصعب بن زبیر رضی اللہ عنھما کا قتل آخر عبدالملک اپنی مکمل تیاریوں کے بعد شام سے عراق کی جانب فوج لے کر چلا‘ عبدالملک دمشق سے اس وقت روانہ ہوا جب کہ اس کے پاس رئوساء کوفہ کے بہت سے خطوط پہنچ چکے تھے‘ کہ آپ کو عراق پر فوراً حملہ آور ہونا چاہیئے‘ عبدالملک کے مشیروں نے روانگی کے وقت اس کو روکا کہ کہیں اہل عراق اور اہل کوفہ کے یہ خطوط اسی قسم کے نہ ہوں جیسے انہوں نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو لکھے تھے‘ عبدالملک نے کہا کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ تو محض کوفہ کے بھروسے پر چل دئیے تھے‘ اور میں ایک زبردست فوج کے ساتھ جا رہا ہوں‘ مجھ کو ان کی بدعہدی یا بے وفائی سے کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا‘ اور مجھ کو یقین ہے کہ وہ جب مجھ کو ایک طاقت ور فوج کے ساتھ دیکھیں گے‘ تو ہر گز اپنے ان وعدوں سے جو وہ خطوط میں کر رہے ہیں نہ پھریں گے۔ آخر عبدالملک فوج لے کر چلا‘ ادھر سے اس کے آنے کی خبر سن کر مصعب بن زبیر رضی اللہ عنھما بھی روانہ ہوئے‘ جس زمانے میں عبدالملک کی فوج کشی کی خبر کوفہ میں پہنچی اس سے پہلے مصعب بن زبیر رضی اللہ عنھما عمر بن عبداللہ بن معمر کو خوارج کے مقابلہ کے لیے بصرہ سے فارس کی طرف بھیج چکے تھے‘ لہٰذا عمر بن عبداللہ بھی اس لڑائی میں موجود نہ تھا‘ دار جاثلیق کے قریب دونوں لشکر ایک دوسرے کے مقابلہ پہنچ کر خیمہ زن ہوئے‘ مصعب بن زبیر کی فوج بہت تھوڑی تھی‘ کیوں کہ عین روانگی کے وقت بہت سے لوگوں نے حیلے بہانے کر کے جانے سے انکار کر دیا تھا‘ جو لوگ میدان میں ساتھ آئے تھے‘ ان میں سے بھی زیادہ حصہ دشمن سے ملا ہوا تھا‘ اور اس بات کا منتظر تھا کہ لڑائی شروع ہو تو دشمن سے جا ملیں‘ غرض لڑائی شروع