تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
پر لٹکا دیا گیا۔ سیدنا اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنھا نے لاش کے دفن کرنے کی اجازت چاہی‘ مگر ان کو حجاج نے اس کی اجازت نہ دی‘ عبدالملک کو جب یہ حال معلوم ہوا تو اس نے حجاج کو ملامت کی اور لاش کو دفن کرنے کی اجازت دی‘ چند روز کے بعد سیدنا اسماء رضی اللہ عنھا کا بھی انتقال ہو گیا۔ حجاج شہادت ابن زبیر رضی اللہ عنھما کے بعد خانہ کعبہ میں داخل ہوا‘ پتھروں کی بڑی کثرت تھی جو باہر سے خانہ کعبہ پر پھینکے گئے تھے‘ فرش مبارک پر خون کے جابجا نشانات تھے‘ پتھروں کو اٹھوایا‘ اور خون کو دھلوایا‘ اہل مکہ سے خلافت عبدالملک کی بیعت لی‘ اس کے بعد مدینہ منورہ کو واپس ہوا‘ وہاں دو مہینے تک ٹھہرا رہا‘ وہاں تمام اہل مدینہ کو سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا قاتل سمجھ کر سختیاں شروع کیں‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو سخت آزار پہنچائے‘ وہاں سے پھر مکہ معظمہ کی جانب آیا‘ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کے بنائے ہوئے خانہ کعبہ کو ڈھا کر پھر از سر نو خانہ کعبہ کی تعمیرکی‘ عبدالملک بن مروان نے حجاج کو ملک حجاز کا گورنر مقرر کیا اوراس نے طارق کی جگہ مدینہ منورہ میں رہنا شروع کیا۔ خلافت ابن زبیر رضی اللہ عنھما پر ایک نظر سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بعد ان کابیٹا یزید اس بات کا مستحق نہ تھا کہ مسلمانوں کا خلیفہ بنایا جائے‘ کیوں کہ اس کے سوا بہت سے لوگ مسلمانوں میں ایسے موجود تھے جو یزید سے زیادہ حکومت و خلافت کی قابلیت رکھتے تھے‘ ان ہی میں ایک سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما بھی تھے‘ یزید کی عملی زندگی بہت ہی قابل اعتراض تھی اور اسی لیے بعض حضرات نے اس کی بیعت سے انکار کیا تھا۔ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بعد اگر سیدنا حسن رضی اللہ عنہ زندہ ہوتے‘ تو بہت زیادہ ممکن تھا‘ کہ وہ مسلمانوں کے خلیفہ یا شہنشاہ تسلیم کر لیے جاتے‘ یزید کے مقابلہ میں اگر سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما مدعی خلافت بن کر کھڑے ہوتے تو نہ صرف تمام دوسرے طبقات اہل اسلام ان کے شریک ہوتے‘ بلکہ خود بنی امیہ میں سے بھی ایک بڑی جماعت ان کی حمایت میں سرگرم نظر آتی‘ مگر انہوں نے کبھی اس طرف توجہ ہی نہ کی‘ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے خود خلافت کے حصول کی بہت کوشش کی مگر ان کو کوفہ والوں نے دھوکہ دیا‘ مکہ و مدینہ کے لوگوں کا مشورہ انہوں نے قبول نہ کیا اور اہل حجاز ان کی کوئی امداد نہ کر سکے‘ اب ان کے بعد سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما سے بہتر کوئی شخص نہ تھا‘ جو مستحق خلافت ہو۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کی خلافت کے صحیح خلافت ہونے کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ تمام عالم اسلام میں لوگوں نے اپنی آزاد مرضی سے ان کو خلیفہ تسلیم کیا اور جہاں جہاں لوگوں کو آزادی حاصل تھی‘ کسی نے بھی ان کی خلافت سے انکار نہیں کیا‘ ہاں بنو امیہ جو خلافت کے معاملہ میں ان کے رقیب تھے ان کی مخالفت پر آمادہ ہوئے‘ اور شام و فلسطین و مصر وغیرہ میں جبر و قہر کے ساتھ انہوں نے اپنی حکومت دوبارہ قائم کی اور پھر اسی جبر و قہر کے ساتھ وہ تمام عالم اسلامی پر اپنی حکومت قائم کر سکے‘ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کی خلافت کے بالمقابل مروان بن حکم اور عبدالملک بن مروان کی حکومت کو باغیوں کی حکومت کہا جا سکتا ہے‘ پس عبدالملک بن مروان کی حکومت کا وہ زمانہ جو سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کی شہادت کے