تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
عصا اپنے پاس سے مرحمت فرمائے جو نقیبی اور سرداری کی علامت سمجھے گئے‘ ۱۲۴ھ میں محمد بن علی بن عبداللہ بن عباس کا بحالت قید انتقال ہوگیا‘ مرتے وقت وہ اپنے بیٹے ابراہیم کو اپنا جانشین بنا گئے اور اپنے نقیبوں اور مریدوں کو وصیت کی کہ میرے بعد سب ابراہیم بن محمد بن علی کو امام تسلیم کر کے ان کی اطاعت وفرمانبرداری کریں۔ بکیر بن ماہان ابراہیم بن محمد کی خدمت میں حاضر ہو کر اور ابراہیم بن محمد سے ہدایات لے کر خراسان کی طرف روانہ ہوا کہ وہاں جا کر لوگوں کو محمد بن علی کے فوت ہونے اور ابراہیم بن محمد کے امام مقرر ہونے کی خبر سنائے‘ بکیر بن ماہان نے خراسان جا کر پوشیدہ طور پر اپنے ہم خیال لوگوں کو جمع کر کے سب کو حالات سنائے اور ہدایات پہنچائیں‘ ہوا خواہان بنوعباس نے جو کچھ زر نقدان کے پاس تھا لا لا کر جمع کیا اور بکیر بن ماہان اس روپیہ کو لے کر امام ابراہیم کی خدمت میں حاضر ہوا‘ اسی ۱۲۴ھ میں ابراہیم بن محمد نے ابو مسلم کو خراسان کی طرف روانہ کیا۔ ابومسلم اور امام ابراہیم کے حالات اور اس تحریک کی آئندہ حالت آگے کسی دوسرے موقع پر بیان کی جائے گی۔ ہشام بن عبدالملک کی خلافت کے حالات جو قابل تذکرہ تھے مختصر طور پر بیان ہوچکے ہیں‘ یزید بن عبدالملک کی وصیت کے موافق ہشام کے بعد ولید بن یزید ولی عہد تھا‘ لیکن ہشام کی خواہش تھی‘ کہ ولید کو معزول کر کے اپنے بیٹے کو ولی عہد بنائے‘ مگر امرائے سلطنت چونکہ اس پر رضامندنہ تھے‘ لہٰذا وہ اپنے ارادے میں کامیاب نہ ہوسکا‘ مگر ہشام اور ولید کے دلوں میں رنجش ضرور پیدا ہوگئی‘ آخر ۶ ربیع الثانی ۱۲۵ھ میں ساڑھے انیس سال خلافت کرنے کے بعد ہشام بن عبدالملک نے وفات پائی۔ ولید بن یزید بن عبدالملک ابو العباس ولید بن یزید بن عبدالملک بن مروان بن حکم ۹۰ھ میں پیدا ہوا‘ اس کی ماں حجاج بن یوسف ثقفی کی بھتیجی اور محمد بن یوسف کی بیٹی تھی‘ یزید بن عبدالملک کی وفات کے وقت یہ کم عمر تھا‘ ابتدا ہی سے اس کا چال چلن اچھا نہ تھا‘ فسق وفجور اور عیش پرستی میں مصروف رہنے کی وجہ سے انگشت نما تھا‘ اس لیے ہشام بن عبدالملک کا اس کو ولی عہدی سے معزول کرنے کا ارادہ کچھ نامناسب نہ تھا‘ مگر ناعاقبت اندیش امیروں اور سرداروں کی مخالفت نے ہشام کو اپنے ارادے میں کامیاب نہ ہونے دیا اور ولید بن یزید ہشام بن عبدالملک کے بعد تخت نشین ہوا‘ ولید بن یزید کا عہد خلافت بنوامیہ کی تباہی وبربادی کا دروازہ کھلنا تھا۔ ولید بن یزید نے تخت خلافت پر بیٹھتے ہی ان لوگوں سے جن کو وہ اپنا مخالف سمجھتا تھا انتقام لینا شروع کیا‘ کسی کا وظیفہ بند کیا‘ کسی کو قید کیا‘ کسی کو قتل کرایا‘ سلیمان بن ہشام اپنے چچا زاد بھائی کو پکڑ کر کوڑوں سے پٹوایا اور داڑھی منڈوا کر تشہیر کرایا‘ یزید بن ہشام اور ولید بن عبدالملک کے کئی بیٹوں کو قید کر دیا۔ غرض تخت نشین ہوکر سب سے پہلا کام یہ کیا کہ اپنے اکثر اہل خاندان کو اپنا دشمن بنایا‘ پھر ہشام بن اسماعیل مخزومی والی مدینہ کے لڑکوں اور خالد بن عبداللہ قسری سابق گورنر عراق کو پکڑ کر یوسف بن عمر والی عراق کے سپرد کیا‘ اس نے ان شرفاء کو نہایت سخت اذیتیں دے دے کر مار ڈالا۔ اپنی خلافت کے پہلے ہی سال یعنی ۱۲۵ھ میں ولید بن یزید نے اپنے بیٹوں عثمان وحکم کے لیے ولی عہدی کی بیعت لوگوں سے لی‘ اگرچہ بیعت ولی عہدی کی رسم پہلے سے