تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کی طرف سے موصل کی حفاظت پر مامور تھے‘ شکست دے کر بھگا دیا‘ اس کے بعد بغداد‘ شام اور مصر کی فوجیں بھی مونس کے پاس چلی آئیں کیونکہ مونس کی داد و دہش سے لشکری خوش تھے۔ ناصر الدولہ بن عبداللہ بن حمدان بھی مونس کے پاس چلا آیا اور اس کے ساتھ ہی موصل میں قیام پذیر ہوا‘ فتح موصل سے نو روز کے بعد مونس نے بغداد پر چڑھائی کا قصد کیا‘ مونس اور وزراء خلافت میں سخت ناچاقی پیدا ہو گئی تھی‘ اسی لیے یہ تمام واقعات ظہور پذیر ہوئے۔ سعید بن عبداللہ شکست کھا کر بغداد چلا آیا تھا‘ مونس کے حملہ کی خبر سن کر بغداد سے سعید بن عبداللہ بن حمدان‘ ابو بکر محمد بن یاقوت اور دوسرے سرداروں کی ماتحتی میں فوجیں روانہ ہوئیں‘ جب مونس کا لشکر قریب پہنچا تو لشکری بغداد کی طرف بھاگ آئے‘ مجبوراً سرداروں کو بھی بغداد واپس آنا پڑا‘ مونس نے بغداد کے قریب پہنچ کر باب شماسیہ پر قیام کیا‘ یہاں طرفین کے مورچے قائم ہوئے‘ لڑائی شروع ہوئی‘ مقتدر قصر خلافت سے نکل کر ایک ٹیلہ پر کھڑا تھا اور آ گے فوج لڑ رہی تھی۔ بغداد والوں کو شکست ہوئی‘ خلیفہ کے ہمراہیوں نے عرض کیا کہ اب آپ یہاں نہ کھڑے ہوں‘ واپس چلیں۔ خلیفہ وہاں سے چلا‘ راستہ میں بربریوں کے ایک دستہ فوج نے آ لیا جو مونس کی فوج میں شامل تھا‘ ایک بربری نے تیر چلایا جو مقتدر کے لگا اور وہ گھوڑے سے گرا‘ اسی بربری نے آگے بڑھ کر مقتدر کا سر اتار لیا‘ جسم کو ننگا کر کے اور تمام کپڑے اتار کر وہیں چھوڑ دیا۔ سر کو نیزے پر رکھ کر مونس کے پاس لے گئے۔ یہ واقعہ بروز چہار شنبہ ۲۷ شوال ۳۳۰ھ کو وقوع پذیر ہوا۔ مونس نے ابو منصور محمد بن معتضد کو تخت سلطنت پر بٹھا کر قاہر باللہ کے لقب سے ملقب کیا‘ علی بن مقلہ کو قلم دان وزارت سپرد ہوا اور عہدہ حجابت پر علی بن بلیق مامور ہوا۔ مقتدر کی ماں کو گرفتار کر کے اس سے روپیہ طلب کیا گیا اور اتنا پٹوایا کہ وہ مر گئی‘ اسی طرح لوگوں کو زبردستی پکڑ پکڑ کر روپیہ فراہم ہوا۔ قاہر باللہ قاہر باللہ بن معتضد باللہ بن متوکل ایک ام ولد فتنہ نامی کے بطن سے پیدا ہوا تھا‘ اس کا نام محمد اور کنیت ابو منصور تھی۔ خلیفہ مقتدر باللہ کے قتل کے بعد اس کا بیٹا عبدالواحد معہ ہارون بن غریب محمد بن یاقوت اور ابراہیم بن رائق کے مدائن کی طرف چلا گیا تھا‘ وہاں سے واسط اور سوس ہوتا ہوا اہواز پہنچا‘ قاہر باللہ نے علی بن بلیق اپنے حاجب کو فوج دے کر عبدالواحد اور اس کے ہمراہیوں کی گرفتاری کے لیے روانہ کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سرداران لشکر کی کوشش اور خط و کتابت کے ذریعہ عبدالواحد اور اس کے ہمراہیوں نے مونس اور خلیفہ قاہر باللہ سے امن طلب کی جو فوراً دی گئی اور یہ سب لوگ بغداد چلے آئے…… محمد بن یاقوت کو خلیفہ نے اپنی مصاحبت میں داخل کر لیا۔ وزیر السلطنت علی بن مقلہ کو محمد بن یاقوت کا مصاحب ہونا سخت ناگوار تھا‘ اس نے مونس کو بہکایا کہ تمہاری مخالفت و بربادی کے لیے محمد بن یاقوت کوشاں ہے‘ مونس نے بلیق اور اس کے بیٹے علی بن بلیق حاجب کو خلیفہ کی نگرانی کا حکم دیا‘ خلیفہ کے پاس محل سرائے میں آنے جانے والی عورتوں تک کی بھی تلاشی لے جانے لگی اور کسی کو اندر جانے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی‘ خلیفہ کو جب یہ معلوم ہوا کہ