تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
یہی عقیدہ اکثردوسرے صحابہ کرام کا بھی تھا‘ اور حقیقت یہ ہے کہ دنیا سے شرک کے مٹانے اور شرک کے امکانات کا استیصال کرنے کے لیے سادات عظام کو جو سردار دو جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں‘ دنیا کی حکومت اور مادی دولت کا خواہش مند بھی نہ ہونا چاہیئے‘ تاکہ وہ فرزندی محمد اور اپنے آل رسول ہونے کا پورا پورا ثبوت پیش کر سکیں۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یہ حکم نہ فرماتے کہ سادات عظام کے لیے صدقہ حرام ہے تو ہم کو یہ توقع ہو سکتی تھی کہ سادات یعنی خاندان نبوی ہی مستحق خلافت اورشہنشاہی کا حق دار ہے‘ لیکن آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا خاندان نبوت کے لیے یہ انتظام فرمانا سب سے بڑی دلیل اس امر کی ہے‘ کہ دنیوی حکومت و سلطنت اور مادی دولت سے بے تعلق ہونا اپنے خاندان والوں کے لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم پہلے تجویز فرما چکے‘ یا الہام الٰہی سے معلوم کر چکے تھے‘ سادات عظام کے لیے یہ اتنا بڑا فخر ہے‘ اور ان کے مرتبہ کو اتنا بلند کر دیتا ہے کہ دنیا کی دوسری قومیں جو شریعت اسلام سے تعلق رکھتی ہیں‘ ان پر جس قدر رشک کریں کم ہے۔ دنیوی دولت اور حکومت بھی وہ چیز ہے جو انسان کو اللہ تعالیٰ سے دور مہجور کر دیتی ہے‘ اور اسی لیے قرآن و حدیث میں دولت دنیا کو حقارت کی نظر سے دیکھا گیا ہے‘ تاریخ ہم کو بتاتی ہے کہ دولت و حکومت کی وجہ سے علم صحیح بھی اعمال صالحہ پر لوگوں کو آمادہ نہیں کر سکا‘ پس شریعت حقہ کی حفاظت ان ہی لوگوں نے کی ہے جو دولت و حکومت سے کچھ زیادہ تعلق نہ رکھتے تھے‘ اور اسی قسم کے لوگ قیامت تک اسلام کی حفاظت کا کام کرتے رہیں گے۔ اس حدیث پر بھی غور کرو‘ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ ’’میں تم میں قرآن اور اپنی آل یعنی سادات کو چھوڑتا ہوں‘‘۔۱؎ پس یہ حدیث بھی اس بات کی دلیل ہو جاتی ہے‘ کہ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے عین منشائے حدیث کے موافق فرمایا تھا کہ ’’میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ نبوت اور خلافت ہمارے خاندان میں جمع نہیں رہ سکتیں۔ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ابتدائی حالات سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ہجرت سے سترہ سال پہلے پیدا ہوئے تھے‘ یعنی وہ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ سے چھ سال چھوٹے تھے‘ سیدنا امیر معاویہ کی ماں ہند بنت عتبہ کی شادی اول فاکہ بن مغیرہ قریشی سے ہوئی تھی‘ فاکہ کو ایک مرتبہ اپنی بیوی ہند کی عصمت و پاک دامنی کے متعلق شبہ گذرا‘ اس نے ہند کو ٹھوکریں مار کر گھر سے نکال دیا‘ اس کا لوگوں میں چرچا ہوا‘ اور ہند کے باپ عتبہ نے بیٹی سے پوچھا‘ کہ یہ کیا معاملہ ہے صاف بتائو‘ اگر فاکہ تم کو متہم کرنے میں سچا ہے تو ہم کسی شخص سے کہہ دیں گے کہ وہ فاکہ کو قتل کر دے گا‘ اور ہم بدنامی سے بچ جائیں گے‘ لیکن اگر وہ جھوٹا ہے‘ اور بلاوجہ بدنام کرتا ہے‘ تو ہم اس معاملہ کو کسی کاہن کی طرف رجوع کریں گے۔ ہند نے اپنی برات و بے گناہی ثابت کرنے کے لیے قسمیں کھائیں اور الزام سے قطعی انکار کیا‘ عتبہ کو جب بیٹی کی بے گناہی کا یقین آگیا‘ تو اس نے فاکہ بن مغیرہ کو مجبور کیا کہ وہ اپنی قوم بنی مخزوم کے لوگوں کو ہمراہ لے کر یمن کے کسی کاہن کے پاس