تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بغداد میں خلافت کی‘ ۶۵۶ھ کے بعد بغداد دارالخلافہ نہیں رہا‘ خلیفہ مستعصم کے بعد دینا میں ساڑھے تین سال تک کوئی خلیفہ نہ تھا‘ اس کے بعد رجب ۶۵۹ھ میں مستعصم باللہ کے چچا ابو القاسم ۱؎ اگرچہ محاورتاً اہل زبان بڑے مصائب کو قیامت صغریٰ سے تعبیر کرتے ہیں‘ جس سے ان کا مقصد اس مصیبت یا تکلیف کی شدت کو بیان کرنا ہوتا ہے! لیکن بہرحال ایسے مصائب کو قیامت پر تطبیق دینا یا قیاس کرنا درست نہیں۔ احمد کے ہاتھ پر بیعت خلافت ہوئی۔ خلفائے عباسیہ مصر میں سلطان صلاح الدین بن ایوب نے حکومت عبیدیہ کے بعد مصر میں دولت ایوبیہ کی بنیاد ڈالی تھی جس کا اجمالی تذکرہ اوپر ہو چکا ہے‘ ۶۴۸ھ تک مصر‘ شام اور حجاز کی حکومت سلطان صلاح الدین کے خاندان میں رہی‘ سلطان صلاح الدین چونکہ کرد قوم سے تھے اس لیے دولت ایوبیہ کو دولت کردیہ بھی کہتے ہیں‘ دولت ایوبیہ کا ساتواں بادشاہ الملک الصالح تھا جو سلطان صلاح الدین کے بھائی کا پرپوتا تھا‘ اس نے اپنے خاندانی رقیبوں کے خطرے سے محفوظ رہنے کے لیے علاقہ کوہ قاف یعنی صوبہ سرکیشیا کے بارہ ہزار غلام خرید کر اپنی حفاظت کے لیے ایک جدید آئینی پیدل فوج قائم کی‘ اس کے عہد سلطنت میں فرانس کے عیسائی بادشاہ نے مصر پر جہازوں کے ذریعہ فوج لا کر حملہ کیا‘ مملوک فوج نے نہایت بردباری کے ساتھ مقابلہ کر کے فرانس کے بادشاہ کو میدان جنگ میں گرفتار کر لیا‘ اس کارمانہ کے بعد مملوک فوج کا مرتبہ اور بھی بلند ہو گیا الملک الصالح کی وفات کے بعد اس کا بیٹا ملک معظم توران شاہ تخت نشین ہوا‘ مگر دوہی مہینے کے بعد تخت سلطنت پر الملک الصالح کی محبوب کنیز شجرۃ الدر نامی قائض ہو گئی‘ اس ملکہ کے عہد حکومت میں بے چینی و سرکشی کے آثار نمایاں ہوئے‘ بلکہ شجرۃ الدر تین مہینے سلطنت کرنے کے بعد گوشہ نشین ہو گئی اور برائے نام خاندان ایوبیہ کا ایک شخص الملک الاشرف موسیٰ بن یوسف تخت نشین ہوا‘ اس کے عہد حکومت میں مملوکوں کا زور اور بھی ترقی کر گیا‘ آخر ۶۵۰ھ میں مملوکوں نے اپنی جماعت میں سے ایک شخص عزیز الدین ایبک صالحی کو الملک المعز کے لقب سے تخت نشین کیا اور مصر میں خاندان ایوبیہ کی حکومت کا سلسلہ ختم ہو کر مملوکیوں یعنی غلاموں کی حکومت شروع ہوئی جو عرصہ دراز تک رہی ۶۵۵ھ میں الملک المعز کے بعد اس کا نو عمر بیٹا علی تخت نشین ہوا اور اس کا لقب الملک المنصور رکھا گیا اور امیر سیف الدین مملوک اس کا اتابک مقرر ہوا‘ ۶۵۷ھ میں مملوکیوں علماء سے فتویٰ حاصل کر کے الملک المنصور کو اس لیے معزول کیا گیا کہ وہ ابھی بچہ تھا اس کی جگہ امیر سیف الدین تخت نشین ہوا اور الملک المظفر اس کا خطاب تجویز ہوا‘ عام طور پر مملوک اپنے اندر سے بیس پچیس آدمیوں کو منتخب کر کے ان کو حکومت کا اختیار دے دیا کرتے تھے‘ یہی بیس پچیس آدمی حکمران کونسل کے ممبر سمجھے جاتے اور اپنے اندر سے کسی ایک شخص کو منتخب کر کے اپنا صدر یا امیر بنا لیتے تھے یہ صدر منتخب ہو کر بادشاہوں کی طرح تخت نشین ہوتا اور سلطان یا ملک کے نام سے پکارا جاتا تھا‘ سلطان تخت نشین ہونے کے بعد باقی ممبران کو نسل کو سلطنت کے بڑے بڑے ملکی عہدے سپرد کرتا تھا‘ ان بیس یا پچیس عہد یداروں ہی میں سے کوئی وزیراعظم ہوتا تھا کوئی رئیس المعسکر‘