تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مدینہ سے نکال دیا ہے‘ جس کو مسلم بن عقبہ مدینہ میں مامور و متعین کر آیا تھا‘ حصین مدینہ کے باہر جا کر خیمہ زن ہوا تو مدینہ کی شورش ہنگامہ آرائی کم ہو گئی اور جس قدر بنی امیہ مدینہ میں موجود تھے وہ سب حصین بن نمیر کے لشکر میں چلے آئے اورکہا ہم کو اپنے ساتھ ملک شام کی طرف لے چلو‘ حصین نے کہا‘ کہ آج رات کو تم یہیں ٹھہرو صبح تم کو ساتھ لے کو کوچ کریں گے۔ شامی لشکر کی زین العابدین کی دعوت خلافت جب رات ہوئی تو حصین بن نمیر تنہا علی بن حسین رضی اللہ عنہ کی تلاش میں نکلا‘ ان سے ملا اور کہا‘ کہ یزید فوت ہو گیا‘ اس وقت عالم اسلام کا کوئی امام نہیں ہے‘ تم میرے ساتھ ملک شام کی طرف چلو‘ میں تمام جہان کو تمہاری بیعت پر آمادہ کر دوں گا اور تم خلیفہ وقت ہو جائو گے‘ اہل شام کو تم اہل عراق کی طرح نہ سمجھو‘ وہ تم کو ہرگز دھوکہ نہ دیں گے‘ اور نہ تمہارے درپے آزار ہوں گے۔ علی بن حسین رضی اللہ عنھما نے کہا کہ میں نے خدائے تعالیٰ سے عہد کیا ہے کہ ساری عمر کسی سے بیعت نہ لوں گا‘ تم مجھ کو اسی حال میں رہنے دو‘ اور کسی دوسرے کو خلافت کے لیے تلاش کر لو‘ یہ کہہ کر وہ حصین سے جدا ہو گئے۔ حصین اپنے لشکر میں آیا اور صبح بنی امیہ کو لے کر شام کی طرف روانہ ہوا۔ عہد یزیدی کی فتوحات سلسلہ کلام میں ہم یزید کی وفات تک پہنچ گئے‘ لیکن یہ تذکرہ رہ گیا تھا کہ عقبہ بن نافع بانی شہر قیروان افریقہ سے دمشق میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس چلے آئے تھے اور ابوالمہاجر کی شکایت کی تھی‘ امیر معاویہ نے وعدہ کیا تھا کہ ہم تم کو پھر افریقہ کی سپہ سالاری پر بھیج دیں گے‘ ابھی یہ وعدہ پورا نہ ہوا تھا کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ فوت ہو گئے‘ یزید نے تخت خلافت پر بیٹھتے ہی عقبہ کو افریقہ کی سپہ سالاری پر نامزد کر کے افریقہ کی طرف روانہ کیا۔ عقبہ نے قیروان پہنچ کر ابو المہاجر کو گرفتار کر کے قید کر دیا‘ اس قید و بند کا سبب یہ تھا کہ ابو المہاجر نے اپنے عہد حکومت میں عقبہ کو ناجائز طور پر برا کہنے اور بدنام کرنے کی کوشش کی تھی‘ اسی حالت قید میں ابوالمہاجر فوت ہوا اور مرنے سے پہلے عقبہ بن نافع کو وصیت کر گیا کہ ایک بربری نو مسلم مسمی کسیلہ سے ہوشیار رہنا‘ کسیلہ کو ابو المہاجر نے مسلمان کیا تھا اور وہ اس کے مزاج و عادات سے واقف ہونے کی وجہ سے جانتا تھا کہ عقبہ نے چونکہ مجھ کو قید کیا ہے‘ اس لیے کسیلہ موقع پا کر ضرور عقبہ سے انتقام لے گا‘ عقبہ بن نافع نے اس بات کی طرف کچھ زیادہ توجہ نہ کی اور کسیلہ کو بدستور اپنی فوج کے ایک چھوٹے حصہ پر سردار رہنے دیا۔ بحر ظلمات تک اسلامی لشکر کی مسلسل یلغار ۶۲ھ میں عقبہ بن نافع نے اپنے بیٹوں کو بلا کر وصیت کی اور کہا کہ میں راہ اللہ تعالیٰ میں جہاد کی غرض سے روانہ ہوتا ہوں اور دل سے خواہشمند ہوں کہ مجھ کو درجہ شہادت حاصل ہو اس کے بعد زہیر بن قیس بلوی کو مختصر فوج کے ساتھ قیروان کی حفاظت کے لیے چھوڑ کر اور خود مجاہدین کا لشکر لے کر مغرب کی طرف روانہ ہوئے۔ شہر باغانہ پر رومی لشکر سے مقابلہ ہوا‘ سخت لڑائی کے بعد رومی فرار ہوئے۔ پھر شہر اربہ پر رومیوں نے دوبارہ سخت مقابلہ کیا‘ اس لڑائی میں بھی ان کو ہزیمت ہوئی۔ مسلمانوں کی فتوحات کے بڑھتے ہوئے سیلاب کو دیکھ کر رومیوں نے بربریوں کو جو