تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
چھوٹی رقیب حکومتیں قائم ہوئیں جن کا شغل آپس میں ہنگامہ کار زار گرم رکھنا ہوا۔ یہاں تک ممالک مغربیہ کی صرف ان سلطنتوں کی فہرست بیان ہوئی ہے جو خلافت عباسیہ کی ہمعصر یعنی ۹۰۰ھ سے پہلے پہلے تھیں‘ خلافت عباسیہ کے ختم اور خلافت عثمانیہ کے شروع ہونے کے بعد ممالک اسلامیہ کی جو حالت ہوئی یا جو کثیر التعداد نئی سلطنتیں دینا کے ہر حصے میں قائم ہوئیں ان کا ذکر اس فصل میں نہیں کیا جائے گا‘ کیونکہ یہ خلافت عباسیہ کی معاصر نہ تھیں‘ اس کے بعد خلافت عثمانیہ اور اس کی معاصر تمام اسلامی سلطنتوں کا حال بیان کیا جائے گا‘ اور چونکہ خلافت عثمانیہ ۱۳۴۲ھ تک قائم رہی لہٰذا خلافت عثمانیہ اور اس کی معاصر سلطنتوں کا حال لکھ لینے کے بعد تاریخ اسلام مکمل ہو جائے گی‘ اس فصل میں جن حکومتوں کی فہرست بیان ہو رہی ہے‘ ان میں سے بعض ایسی بھی ہیں کہ ان کا تذکرہ صرف اسی قدر کافی ہے جو اس فہرست میں بیان ہوا‘ لیکن اکثر ایسی ہیں کہ ان کی تفصیلی تاریخ بیان ہونی چائیے اگرچہ وہ تفصیل بھی خلاصہ اور نہایت مختصر مگر مکمل خلاصہ ہو گا‘ انہیں حکومتوں کے حالات کا مجموعہ تاریخ اسلام کی تیسری جلد ہو گی۔ اس فصل میں ممالک مشرقیہ کی بعض سلطنتوں کی طرف ابھی اور اشارہ کرنا باقی ہے۔ مثلاً دولت اسماعیلیہ حشاشین سیدنا جعفر صادق کے بیٹے موسیٰ کاظم کو اثنا عشری شیعہ امام موصوف کا جانشین اور امام مانتے ہیں‘ لیکن موسیٰ کاظم کے ایک بھائی اسمٰعیل تھے‘ جو لوگ بجائے موسیٰ کاظم کے ان کے بھائی اسمٰعیل کو امام مانتے ہیں وہ شیعہ اسمٰعیلیہ کہلاتے ہیں‘ دولت عبیدیین اسماعیلی شیعوں کی سب سے بڑی سلطنت تھی‘ اسماعیلیوں نے اپنے حصول مقصد کے لیے ہمیشہ پوشیدہ اور خفیہ کاروائیوں اور نہاں درنہاں سازشوں سے کام لیا۔ سلطنت عبیدیہ نے اپنے عقائد اور خیالات کی اشاعت کے لیے شروع ہی سے ایک خفیہ محکمہ قائم کر دیا تھا جس کے ذریعہ داعیوں کو اپنی مملکت میں ہی نہیں بلکہ دوسرے ملکوں میں بھی بھیجا جاتا تھا‘ یہ داعی و اعظوں‘ درویشوں اور تاجروں وغیرہ کی شکل میں تمام اسلامی ممالک کے اندر پھیلے ہوتے تھے اور لوگوں کو اسماعیلی عقائد کی تعلیم و ترغیب دیتے تھے‘ ان کے کفریہ عقائد قابل نفریں اور نہایت خطرناک تھے‘ قرآن شریف کو یہ لوگ قابل عمل نہیں جانتے تھے‘ اسمٰعیل بن جعفر صادق کو پیغمبر مانتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ہم رتبہ خیال کرتے اور محمد مکتوم بن اسمٰعیل بن جعفر صادق کو بھی نبی یقین کرتے تھے‘ ان کے تردیک اماموں کی تعداد سات تھی‘ بانی دولت عبیدیہ کو ساتواں امام قرار دیتے اور عبیدیہ سلاطین کی فرماں برداری و اطاعت کو ذریعہ نجات ثابت کرتے تھے وغیرہ‘ ان داعیوں کی کوششوں نے سلطنت عبیدیہ کو بہت فائدہ پہنچایا اور اس کی قبولیت کو بڑھایا تھا۔ حسن بن صباح ایک شخص رے کا باشندہ تھا‘ اس کے نسب میں اختلاف ہے بعض کہتے ہیں کہ وہ عربی النسل تھا‘ اس کے آباء و اجداد یمن سے آئے تھے‘ بعض کا قول ہے کہ وہ مجوسی النسل تھا‘۱؎ بہر ۱؎ اس نے قلعہ الموت میں اپنی سلطنت قائم کر رکھی تھی۔ اس کے پیروکار حشیشین کہلاتے تھے۔ حشیش کا نشہ ان کی زندگی کا لازمہ تھا۔ بعض نے حسن بن صباح کو عربی النسل یہودی کہا ہے۔ حال حسن بن صباح کے باپ اور اہل خاندان کا عقیدہ شیعی تھا‘ حسن بن صباح نے نیشا