تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
وفاداری یاد دلائی گئی تو وہ وفاداری کی شرائط پورے کرنے لگے۔ کوفہ کے اندر جذبات تھے‘ دماغ نہ تھا‘ جوش تھا‘ مگر عقل نہ تھی‘ خروش تھا مگر غور و فکر کا سکون نہ تھا‘ ایسی حالت میں کوفہ سے ان ہی باتوں کی توقع ہو سکتی تھی جو ظہور میں آئیں‘ جب چند نسلیں گذر گئیں‘ اور زمانے کے حوادث نے اس مختلف الاجزاء مجموعے کو کیمیاوی امتزاج سے ایک خاص مزاج دے دیا تو پھر کوفہ کی یہ متلون مزاجی بھی رفتہ رفتہ دور ہو گئی۔ عبدالملک بن مروان عبدالملک بن مروان بن حکم بن ابی العاص بن امیہ بن عبدشمس بن عبدمناف بن قصی بن کلاب ماہ رمضان المبارک ۲۳ھ میں پیدا ہوا‘ اس کی کنیت ابوالولید تھی‘ اور ابوالملوک کے نام سے بھی مشہور ہے‘ کیوں کہ اس کے کئی بیٹے یکے بعد دیگرے تخت سلطنت پر بیٹھے۔ یحییٰ عنانی کہتے ہیں‘ کہ عبدالملک اکثر ام الدرداء رضی اللہ عنھا صحابیہ کے پاس بیٹھا کرتا تھا‘ ایک مرتبہ انہوں نے پوچھا‘ کہ میں نے سنا ہے کہ تو عبادت گذار ہونے کے بعد شراب خور ہو گیا ہے‘ عبدالملک نے کہا کہ میں تو خوں خوار بھی ہو گیا ہوں۔ نافع کہتے ہیں‘ کہ مدینہ میں کوئی جوان عبدالملک کی مانند چست و چالاک اور قرآن و حدیث کا واقف اور عابد زاہد نہ تھا۔ ابو الزناد کہتے ہیں‘ کہ سعید بن المسیب‘ عبدالملک بن مروان ‘ عروہ بن زبیر ضض‘ اور قبیصہ بن زویب فقہائے مدینہ ہیں‘ عبادہ بن مثنیٰ نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ لوگوں کے بعد ہم مسائل کس سے دریافت کریں‘ انہوں نے کہا کہ مروان کا بیٹا فقیہ ہے اس سے دریافت کرنا۔ ایک روز عبدالملک سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے فرمایا‘ کہ یہ شخص ایک دن عرب کا بادشاہ ہو جائے گا۔ ام الدرداء رضی اللہ عنھا نے بعد از خلافت ایک روز عبدالملک سے کہا‘ کہ میں پہلے ہی سمجھتی تھی کہ تو ایک روز بادشاہ ہوجائے گا‘ عبدالملک نے پوچھا کہ کس طرح‘ انہوں نے فرمایا‘ کہ میں نے تجھ سے بہتر نہ کوئی بات کرنے والا دیکھا‘ نہ بات سننے والا۔ شعبی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ میں جس شخص کی صحبت میں بیٹھا وہ میرے علم کا قائل ہو گیا‘ مگر میں عبدالملک کے علم و فضل کا قائل ہوں‘ میں نے اس سے جب کبھی کوئی حدیث بیان کی تو اس میں اس نے کچھ نہ کچھ ایزاد کر دیا‘ اور جب کبھی کوئی شعر پڑھا تو اس نے بھی اس کے ہم مضمون بہت سے اشعار پڑھ دیئے۔ ذہبی gکہتے ہیں عبدالملک نے عثمان ضض‘ ابوہریرہ ضض‘ ابو سعید ضض‘ ام سلمہ رضی اللہ عنھا ‘ ابن عمر رضی اللہ عنہ اور معاویہ رضی اللہ عنہ سے حدیث سنی‘ اور اس سے عروہ‘ خالد بن سعدان‘ رجاء بن حیوۃ‘ زہری‘ یونس بن میسرہ‘ ربیعہ بن یزید‘ اسماعیل بن عبیداللہ‘ جریر بن عثمان وغیرہ نے روایت کی۔ یحیٰ غسانی کہتے ہیں کہ جب مسلم بن عقبہ (۶۳ھ میں یزید بن معاویہ کے حکم سے مدینہ پر حملہ کرنے والی فوج کا سپہ سالار) مدینہ میں پہنچا تو میں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم میں گیا اور عبدالملک کے پاس جا بیٹھا‘ اس نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تو بھی اس فوج میں ہے؟ میں نے کہا ہاں‘ عبدالملک نے کہا کہ تو نے ایسے شخص کے خلاف ہتھیار اٹھائے ہیں‘ جو ظہوراسلام کے بعد سب سے پہلے پیدا ہوا‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم