تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اس تمام خزانہ پر اس کا قبضہ ہو گیا تھا‘ ابومسلم کا خزانہ بھی اس کے قبضہ میں آگیا تھا‘ اس خزانے اور مال و اسباب کو جمہور نے منصور کے پاس نہ بھیجا اور رے میں جاکر قلعہ بندی کر کے منصور کی خلع خلافت اور بغاوت کا اعلان کر دیا‘ منصور نے جمہور کے مقابلہ پر محمد بن اشعث کو فوج دے کر روانہ کیا‘ جمہور یہ سن کر رے سے اصفہان کی طرف چلا گیا‘ جمہور اصفہان پر محمد بن اشعث رے پر قابض ہو گیا اس کے بعد محمد نے اصفحان پر چڑھائی کی‘ جمہور نے مقابلہ کیا‘ سخت لڑائی کے بعد جمہور شکست کھا کر آذربائیجان کی طرف بھاگا‘ وہاں جمہور کے ہمراہیوں میں سے کسی نے اس کو قتل کر کے اس کا سر منصور کے پاس بھیج دیا‘ یہ ۱۳۸ھ کا واقعہ ہے۔ ۱۳۹ ھ میں منصور نے اپنے چچا سلیمان کو حکومت بصرہ سے معزول کر کے اپنے پاس بلایا اور لکھا کہ عبداللہ بن علی کو جو ابومسلم سے شکست کھا کر بصرہ میں اپنے بھائی سلیمان کے پاس چلا آیا تھا‘ امان دیکر اپنے ہمراہ میرے پاس لیتے آو‘ جب عبداللہ بن علی کو سلیمان نے دربار میں حاضر کیا تو منصور نے اس کو قید کر دیا (بعد میں قتل کرادیا تھا۔) فوقہ راوندیہ فرقہ راوندیہ کو شیعوں میں شمار کیا جاتا ہے‘ یہ در حقیقت ایران و خراسان کے جاہل لوگوں کا ایک گروہ تھا جو علاقہ راوند میں رہتا اور ان لوگوں میں سے نکلا تھا جن کو ابومسلم خراسانی نے اپنے ساتھ شامل کیا تھا‘ ابومسلم نے جو جماعت تیار کی تھی اس کو مذہب سے کوئی تعلق نہ تھا بلکہ جس طرح ممکن ہوتا تھا ان کو سیاسی اغراض کے لیے آمادہ و مستعد کرنے کی کوشش کی جاتی تھی‘ یہ گروہ جس کو راوندیہ کہا جاتا ہے ‘ تناسخ۱؎ اور حلول کا قائل تھا‘ ان کا عقیدہ تھا کہ خدائے تعالیٰ نے منصور میں حلول کیا ہے‘ چنانچہ یہ ۱؎ اسے آواگون کا نظریہ بھی کہتے ہیں۔ یہ ایک باطل نظریہ ہے جس کے مطابق انسان بار بار جنم لیتا ہے۔ عصر حاضر میں زیادہ تر یہ عقیدہ ہندوئوں کے مذہب کا حصہ ہے۔ لوگ خلیفہ منصور کو اللہ تعالیٰ سمجھ کر اس کی زیارت کرتے تھے اور منصور کے درشن کرنے کو عبادت جانتے تھے‘ ان کا یہ بھی عقیدہ تھا کہ آدم uکی روح نے عثمان بن نہیک میں اور جبرائیل نے ہثیم بن معاویہ میں حلول کیا ہے‘ یہ لوگ دارالخلافہ میں آکر اپنے اعمال و عقائد ناشدنی کا اعلان کرنے لگے‘ سو منصور نے ان میں سے دو سو آدمیوں کو پکڑ کر قید کر دیا‘ ان کی پانچ چھ سو تعداد اور موجود تھی‘ ان کو اپنے ہم عقیدہ لوگوں کی اس گرفتاری سے اشتعال پیدا ہوا اور قیدخانہ پر حملہ کر کے اپنے بھائیوں کو قید سے چھڑا لیا‘ اور پھر منصور کے محل کا محاصرہ کر لیا‘ تعجب کی بات یہ ہے کہ وہ منصور کو اللہ تعالیٰ کہتے تھے اور پھر اس اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف آمادہ جنگ تھے۔ اس موقع پر یہ بات قابل تذکرہ ہے کہ یزید بن ہبیرہ کے ساتھیوں میں معن بن زائدہ بھی تھا‘ اور جب ابن ہبیرہ کی لڑائیاں عباسیوں سے ہوئی ہیں تو معن بن زائدہ ابن ہبیرہ کے نامور سرداروں میں سے ایک تھا‘ معن بن زائدہ ابن ہبیرہ کے بعد دارالخلافہ ہاشمیہ میں آکر روپوش تھا اور منصور اس کی تلاش و جستجو میں تھا کہ معن بن زائدہ کو گرفتار کراکر قتل کرے‘ ان بدمذہب راوندیوں نے جب منصور کے محل کا محاصرہ کیا تو منصور پیادہ پا اپنے محل سے نکل آیا اور بلوائیوں کو مارنے اور ہٹانے لگا‘ منصور کے ساتھ بہت