تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مذکورہ بالا تبادلہ اسیران کے بعد رومیوں نے پھر بد عہدی کی اور اسلامی شہروں پر اچانک حملہ کر کے بہت سے مسلمانوں کو گرفتار کر کے لے گئے‘ مسلمان سرداروں نے رومیوں کا تعاقب کیا مگر ناکام واپس آئے۔ اس کے بعد خلیفہ متوکل نے علی بن یحییٰ کو لشکر صائفہ کے ساتھ بلاد روم پر جہاد کرنے کو روانہ کیا اور ۲۴۴ھ میں خود دار الخلافہ کو چھوڑ کر دمشق میں آیا اور دمشق میں قیام کر کے بلاد روم پر فوجیں بھیجنے اور حملہ روم کو کامیاب بنانے میں مصروف ہوا‘ خلیفہ کے ہمراہ دمشق میں تمام اراکین سلطنت آ گئے اور دفاتر شاہی بھی دمشق میں آ گئے‘ کیونکہ خلیفہ کا ارادہ مستقل طور پر دمشق ہی میں قیام کرنے کا تھا۔ ابھی خلیفہ کو دمشق میں آئے ہوئے صرف دو ہی مہینے گذرے تھے کہ وہاں وبا پھوٹ نکلی اور خلیفہ کو مجبوراً دمشق سے بغداد آنا پڑا‘ دمشق سے روانگی کے وقت متوکل علی اللہ بغاکبیر کو ایک لشکر عظیم کے ساتھ بلاد روم پر حملہ کرنے کے لیے روانہ کر آیا‘ بغاکبیر نے بلاد روم میں داخل ہو کر ہر طرف قتل کا بازار گرم کر دیا‘ بہت سے قلعے فتح کیے اور رومیوں کو بے دریغ تہ تیغ کرنے اور اسیر بنانے میں کمی نہیں کی۔ جب رومیوں نے الامان الامان کی آوازیں بلند کیں اور اپنی خطائوں کی معافی چاہی تو بغاکبیر خلیفہ کے حکم سے واپس آیا‘ ۲۴۵ھ میں رومیوں نے پھر بد عہدی کی اور موقعہ پا کر مسلمانوں کے شہروں کو لوٹ کر بھاگ گئے‘ اس کے جواب میں علی بن یحییٰ نے بلاد روم پر حملہ کیا اور خوب لوٹ مار کر واپس ہوا۔ ۲۴۶ھ میں رومیوں نے پھر مسلمانوں کو تنگ کیا اور سرحدی مقامات کو لوٹ کر ویران کر دیا۔ اب کی مرتبہ خلیفہ متوکل نے خشکی اور تری کی راہوں سے مختلف مقامات اور مختلف سمتوں سے بلاد روم پر حملہ آوری کے لیے فوجیں متعین کی‘ ان بری و بحری فوجوں نے بلاد روم میں ایک زلزلہ پیدا کر دیا‘ رومیوں نے پھر معافی چاہی اور صلح کے خواہش مند ہوئے‘ مسلمانوں نے بخوشی اس درخواست کو منظور کر لیا اور نہر لامس پر پھر قیدیوں کا تبادلہ عمل میں آیا۔ اس مرتبہ دو ہزار تین سو قیدی ۲۴۶ھ میں چھڑائے گئے۔ تعمیر جعفریہ ۲۴۵ھ میں متوکل نے ایک جدید شہر موسوم بہ جعفریہ آباد و تعمیر کرایا‘ اس کی تعمیر میں دو لاکھ دینار صرف ہوئے‘ وسط شہر میں ایک بہت بڑا محل جس کا نام لولوہ رکھا تھا تعمیر کرایا‘ اس کی بلندی تمام شاہی محل سرائوں سے زیادہ تھی‘ اس شہر کو کوئی جعفریہ کوئی متوکلہ کوئی ماخورہ کہتا تھا‘ اسی سال جعفر بن دینار خیاط نے وفات پائی‘ اسی سال نجاح بن مسلمہ کو متوکل نے اس قدر پٹوایا کہ وہ مر گیا‘ نجاح بن مسلمہ بڑے رعب داب کا آدمی کے دفتر فرامین کا افسر تھا اس کی نسبت رشوت کا الزام ثابت ہو گیا تھا اسی لیے اس کو ایسی سخت سزا دی گئی۔ قتل متوکل خلیفہ متوکل نے اپنے بیٹے منتصر کو ولی عہد اول بنایا تھا جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے منتصر پر شیعیت غالب تھی اور اعتزال میں وہ واثق اور معتصم کا ہم عقیدہ تھا‘ لیکن متوکل پابند سنت اور علمائے اہل سنت کا بڑا قدردان اور خلق قرآن کے مسئلہ کا تخت مخالف تھا اور شرک و بدعت کو مٹانے میں ہمت کے ساتھ مصروف رہتا تھا‘ باپ بیٹوں یعنی متوکل و منتصر کے عقائد کا یہ اختلاف آپس کی کشیدگی کا باعث ہوا‘ متوکل نے ارادہ کیا کہ بجائے منتصر کے اپنے دوسرے بیٹے معتز کو ولی عہد اول بنا دے‘ منتصر