تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کیوں کہ لڑائی قبل از وقت موت کو نہیں بلاتی‘ نیک کام کا اجر ملتا ہے اور مصیبت میں اللہ مددگار ہوتا ہے‘ سختی میں نرمی اختیار کرنی چاہیئے‘ آپس میں رنجشیں نہ بڑھانا‘ کیوں کہ ایک تیر کو جو چاہے توڑ سکتا ہے اور جب بہت سے تیر جمع ہو جائیں تو کوئی نہیں توڑ سکتا‘ اے ولید میں جس معاملہ میں تجھے خلیفہ کرتا ہوں اس میں اللہ تعالیٰ کا خوف کرنا‘ حجاج کا خیال رکھنا‘ اسی نے گویا تجھ کو خلافت تک پہنچایا ہے‘ اس کو اپنا داہنا بازو اور اپنی تلوار سمجھنا‘ وہ تجھ کو تیرے دشمنوں سے پناہ میں رکھے گا‘ اس کے حق میں کسی کا قول نہ سننا‘ اور یاد رکھنا کہ تجھ کو حجاج کی زیادہ ضرورت ہے اور حجاج کو تیری اتنی ضرورت نہیں‘ جب میں مر جائوں تو لوگوں سے اپنی بیعت لے اور جو شخص انکار کرے اس کی گردن اڑا دے‘‘۔ نزع کے وقت ولید اس کے پاس آیا اور رونے لگا‘ عبدالملک نے کہا کہ لڑکیوں کی طرح رونے سے کیا فائدہ ہے‘ میرے مرنے کے بعد تیار ہو کر اور جرأت کو کام میں لا کر اپنی تلوار کو کندھے پر رکھ‘ اور جو شخص ذرا بھی سر اٹھائے اس کا سر کاٹ لے‘ جو چپ رہے اسے چھوڑ دے کہ وہ اپنے مرض میں آپ ہی مر جائے گا۔ عبدالملک ماہ شوال ۸۶ھ میں ۶۳ سال کی عمر میں فوت ہوا۔ ثعلبی رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے کہ عبدالملک کہا کرتا تھا کہ میں رمضان میں پیدا ہوا‘ رمضان ہی میں میرا دودھ چھڑایا گیا‘ رمضان ہی میں میں نے قرآن شریف ختم کیا‘ رمضان ہی میں میں بالغ ہوا‘ رمضان ہی میں میں ولی عہد ہوا‘ رمضان ہی میں خلیفہ بنا‘ مجھے خوف ہے کہ میں رمضان ہی میں مروں گا‘ لیکن جب رمضان گذر گیا‘ اور عبدالملک کو اطمینان ہو گیا تو وہ ماہ شوال میں فوت ہو گیا۔ ایک روز عبدالملک کے پاس ایک عورت آئی‘ اور کہا کہ میرا بھائی چھ سو دینار چھوڑ کر مرا ہے‘ تقسیم میراث میں مجھ کو صرف ایک دینار دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے‘ کہ تجھے اسی قدر حق پہنچتا ہے۔ عبدالملک نے اسی وقت شعبی کو بلایا اور دریافت کیا‘ انہوں نے کہا کہ یہ تقسیم بالکل درست ہے‘ متوفی دو بیٹیاں چھوڑ کر مرا‘ ان دونوں کو دو تہائی یعنی ۴۰۰ دینار ملیں گے‘ اور ماں کو چھٹا حصہ یعنی ایک سو دینار‘ بیوی کو آٹھواں حصہ یعنی پچھتر دینار‘ اور۱۲ بھائیوں کو ۲۴ دینار‘ پس اس حساب سے اس کے حصے میں ایک ہی دینار آئے گا۔ خلافت عبدالملک کے اہم واقعات سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کی شہادت کے بعد عبدالملک نے حجاج کو ملک حجاز کا حاکم بنا دیا تھا‘ حجاج نے خانہ کعبہ کو ڈھا کر اور سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کے زمانہ کی تعمیر میں حصہ کم کر کے‘ خانہ کعبہ کو از سر نو تعمیر کیا‘ حجاج نے مکہ و مدینہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم پر بڑے بڑے ظلم روا رکھے‘ سیدنا انس رضی اللہ عنہ وغیرہ جلیل القدر صحابیوں کی مشکیں کسوائیں اور کوڑے پٹوائے‘ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے جو بڑے جلیل القدر ار بزرگ صحابی رضی اللہ عنہ تھے حجاج کو محض اس لیے عداوت تھی کہ وہ ہمیشہ صاف گو اور حق پسند تھے‘ حجاج کی حکمرانی ان کو مرعوب نہیں کر سکتی تھی‘ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے کوئی چیز ان کو نہ روک سکتی تھی‘ حجاج نے ایک شخص کو تعینات کر دیا کہ وہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو زخمی و ہلاک کرے‘ چنانچہ حج کے موقع پر خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہوئے لوگوں کی بھیڑ میں ایک شخص نے اپنا برچھا