تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
چند عجمی ننگی تلواریں لیے ہوئے قید خانہ میں آئے‘ امین ان کو دیکھ کر آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنے لگا‘ ان میں سے ایک نے لپک کر امین کو پکڑ کر زمین پر گرا دیا اور ذبح کر کے سر اتار لیا‘ سر لے کر چلے گئے‘ صبح ہوئی تو لاش کو بھی اٹھا کر لے ۔گئے۔ طاہر نے امین کا سر منظر عام پر لٹکا دیا‘ جب لوگوں نے اچھی طرح دیکھ لیا تو اپنے چچا زاد بھائی محمد بن حسن بن زریق بن مصعب کے ہاتھ خاتم خلافت‘ عصا‘ چادر کے ہمراہ مامون کے پاس بھیج دیا اور شہر میں امن کی منادی کرا دی‘ جمعہ کے دن مسجد جامع میں مامون کے نام کا خطبہ پڑھا اور امین کی برائیاں بیان کیں‘ موسیٰ و عبداللہ پسران امین کو مامون کے پاس بھیج دیا اور زبیدہ خاتون مادر امین کو دریائے زاب کے کنارے کسی مقام پر جلاء وطن کر کے بھیج دیا۔ اس کے بعد طاہر کے لشکر نے اپنے روزینے طلب کئے‘ مگر جب وصول نہ ہوئے تو سرکشی اور بغاوت پر آمادہ ہو گئے‘ طاہر کو بغداد سے اپنی جان بچا کر بھاگنا پڑا‘ پھر اپنے خاص سرداروں کو بلا کر اور ایک جمعیت فراہم کر کے بغداد میں داخل ہوا اور اہل شہر و اہل لشکر کو اطاعت پر مجبور کیا۔ خلافت امین کا جائزہ ! خلیفہ امین نے ۲۷ یا ۲۸ برس کی عمر پائی‘ چار برس اور ساڑھے سات مہینے خلافت کی‘ یہ تمام زمانہ فتنہ و فساد اور خون ریزی میں گذرا‘ ہزار ہا مسلمانوں کا خون بلا وجہ بہایا گیا‘ امین کا عہد خلافت عالم اسلام کے لیے مصیبت و نحوست کا زمانہ تھا‘ امین اگرچہ نحو و ادب میں دست گاہ کامل رکھتا اور اچھے شعر کہتا تھا‘ اہل علم کا قدر دان بھی تھا مگر لہو و لعب کی طرف مائل اور مہمات سلطنت کے سر انجام دینے کے ناقابل تھا‘ تخت سلطنت پر بیٹھتے ہی قصر منصور کے قریب میدان چوگان کے بنانے کا حکم دیا‘ زیب و زینت اور آرائش کے کاموں میں اس کی خصوصی توجہ صرف ہوتی تھی‘ گانے بجانے کا شائق اور حسن پرستی کی لعنت میں گرفتار تھا‘ پھر سب سے بڑی مصیبت یہ تھی کہ خود غرض وزراء میں ایسا کوئی نہ تھا جو کہتا کہ:۔ توئی مرد میدان ایں کارواں چہ کارت بعشق پری پیکراں غرض امین اپنی نوجوانی کے جذبات کا پورے طور پر مغلوب اور ملک گیری و ملک داری کی صفات سے معرا تھا‘ فضل بن ربیع جو اس کا وزیراعظم تھا‘ خاندان عباسیہ کے لیے اچھا و زیر ثابت نہ ہوا‘ فضل بن ربیع نے ہی طوس سے اس لشکر اور اس سامان کو جو مامون کے پاس ہارون کی وصیت کے موافق رہنا چاہیئے تھا بغداد لانے اور مامون کو نقصان پہنچانے کی نامناسب حرکت سے امین و مامون دونوں بھائیوں میں عداوت و دشمنی کا بیج بویا‘ اتنی سی بات کو غالباً مامون برداشت کر لیتا اور امین اپنی عیش پرستی کے سبب مامون کے درپے نہ ہوتا‘ لیکن دوسرا نازیبا کام فضل بن ربیع نے امین سے یہ کرایا کہ مامون کو ولی عہدی سے معزول کرا کر امین کے شیر خوار بچے کو مامون کی جگہ ولی عہد بنوایا‘ اور اس ملک میں سے جو ہارون کی وصیت اور تقسیم کے موافق مامون کا تھا ایک حصہ پر قبضہ کر لینا چاہا‘ عہد نامے کو خانہ کعبہ سے منگوا کر چاک کر دینے کی حرکت بھی امین نے فضل بن ربیع کے مشورے سے کی‘ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خاندان عباسیہ کے تمام با اثر اراکین امین سے بدگمان و بد دل ہو گئے۔ اگر ذرا غور سے دیکھا جائے تو ان تمام مصائب اور تمام نقصانات کا (جو عالم اسلام