تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کہ ہم کو ہر گز واپس نہیں ہونا چاہیئے۔ اب تو ہم مسلم کا قصاص لیں گے ورنہ ان ہی کی طرح جان دیں گے‘ دوسرے یہ کہ حسین بن علی رضی اللہ عنھما مسلم بن عقیل کی طرح نہیں ہیں‘ ان کو جب کوفہ والے دیکھیں گے‘ تو ضرور ان کے شریک حال ہو جائیں گے‘ اور ابن زیاد کو گرفتار کر لیں گے۔ اس قافلہ میں کئی سو آدمی شامل تھے اور راستے میں لوگ شامل ہو ہو کر ان کی تعداد کو دم بدم بڑھاتے جاتے تھے‘ لیکن ثعلبیہ میں اس خبر کو سن کر جب قافلہ آگے بڑھا تو دوسرے قبائل کے لوگ بتدریج جدا ہونے شروع ہوئے‘ یہاں تک کہ خاص اپنے خاندان اور قبیلے کے لوگ باقی رہ گئے‘ جن کی تعداد ستر اسی کے قریب بیان کی جاتی ہے۔ بعض روایتوں میں ڈھائی سو کے قریب بیان کی گئی ہے۔ حادثہ کربلا عبیداللہ بن زیاد نے عمرو بن سعد بن ابی وقاص کورے کی حکومت پر نامزد کیا‘ اور فی الحال چار ہزار فوج دے کر مامور کیا کہ صحرا میں نکل کر تمام راستوں اور سڑکوں کی نگرانی کروائو‘ حسین بن علی رضی اللہ عنھما کا کھوج لگائو‘ کہ وہ کس طرف سے آرہے ہیں اور کہاں ہیں اور ایک ہزار آدمی حر بن یزید تمیمی کے سپرد کر کے اس کو بھی گشت و گرد اوری پر مامور کیا‘ عمرو بن سعد مقام قادسیہ میں ہو کر ہر سمت کی خبریں منگوانے کا انتظام کرنے لگا۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ ایک عجیب شش و پنج کے عالم میں مقام سراف تک پہنچے‘ اس سے آگے بڑھے تو حربن یزید تمیمی معہ اپنی ایک ہزار فوج کے سامنے آیا۔ امام حسین رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر حر سے کہا کہ میں تم ہی لوگوں کے بلانے سے یہاں آیا ہوں اگر تم لوگ اپنے عہد و اقرار پر قائم ہو تو میں تمہارے شہر میں داخل ہوں‘ نہیں تو جس طرف سے آیا ہوں اسی طرف واپس چلا جائوں گا‘ حر نے کہا ہم کو عبیداللہ بن زیاد کا حکم ہے کہ آپ کے ساتھ ساتھ رہیں اور آپ کو اس کے سامنے زیر حراست لے چلیں‘ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ ذلت تو ہرگز گوارا نہیں ہو سکتی‘ کہ ابن زیاد کے سامنے گرفتار ہو کر جائیں۔ اس کے بعد انہوں نے واپس ہونے کا ارادہ کیا تو حر نے ابن زیاد کے خوف سے ان کو واپس ہونے سے روکا‘ اور واپسی کے راستے میں اپنی فوج لے کر کھڑا ہو گیا‘ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے وہاں سے شمال کی جانب کوچ کیا اور قادسیہ کے قریب پہنچ گئے‘ وہاں معلوم ہوا کہ عمرو بن سعد ایک بڑی فوج کے ساتھ مقیم ہے حر آپ کے پیچھے پیچھے تھا‘ قادسیہ کے قریب پہنچ کر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ وہاں سے لوٹے اور دس میل چل کر مقام کربلا میں آکر مقیم ہوئے۔ عمرو بن سعد آپ کی خبر سن کر معہ فوج روانہ ہوا اور سراغ لیتا ہوا اگلے روز کربلا پہنچ گیا‘ قریب پہنچ کر عمرو بن سعد اپنی فوج سے جدا ہو کر آگے آیا‘ اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو آواز دے کر اپنے قریب بلایا‘ سلام علیک کے بعد ابن سعد نے کہا: ’’بے شک آپ یزید کے مقابلہ میں زیادہ مستحق خلافت ہیں‘ لیکن خدائے تعالیٰ کو یہ منظور نہیں کہ آپ کے خاندان میں حکومت و خلافت آئے‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے حالات آپ کے سامنے گذر چکے ہیں‘ اگر آپ اس سلطنت و حکومت کے خیال کو چھوڑ دیں‘ تو بڑی آسانی سے آزاد ہو سکتے ہیں‘ نہیں تو پھر آپ کی جان کا خطرہ ہے اور ہم لوگ آپ کی گرفتاری پر مامور ہیں‘‘۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا: