تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ابی طالب بھی مقتول ہوئے‘ مصعب بن زبیر رضی اللہ عنھما نے ان لوگوں کو جو قصر امارت کے اندر محصور تھے …گرفتار کیا‘ تمام وہ لوگ بھی جو میدان جنگ میں گرفتار ہوئے تھے کوفہ کے اندر لائے گئے‘ اور ایک وسیع مقام پر ان تمام قیدیوں کو فراہم کر کے ان کی نسبت مشورہ کیا گیا‘ مہلب بن ابی صفرہ نے کہا کہ ان سب کو چھوڑ دینا چاہیئے‘ لیکن محمد بن الاشعت اورتمام دوسرے کوفیوں نے یہ سن کر مصعب بن زبیر رضی اللہ عنھما کو اس رائے پر عمل کرنے سے منع کیا۔ مصعب بن زبیر رضی اللہ عنھما حیران تھے کہ میں کیا کروں‘ کوفی کہتے تھے‘ کہ ان لوگوں نے مختار کے ہاتھ پر بیعت کر کے کوفہ میں کوئی گھر ایسا نہیں چھوڑا‘ جس میں کوئی نہ کوئی آدمی قتل نہ کیا ہو‘ اگر یہ لوگ اب چھوڑ دیئے گئے تو اسی وقت تمام کوفہ باغی ہو جائے گا‘ ان لوگوں کی کل تعداد چھ ہزار تھی جن میں صرف سات سو عرب اور باقی ایرانی لوگ تھے‘ مصعب بن زبیر رضی اللہ عنھما نے آخر سوچ کر یہی فیصلہ کیا کہ ان لوگوں کو قتل کر دیا جائے‘ چنانچہ وہ سب قتل کر دیئے گئے‘ اور اہل کوفہ کو اطمینان میسر ہوا‘ مصعب نے مختار کے دونوں ہاتھ کٹوا کر جامع مسجد کوفہ کے دروازہ پر لٹکا دیئے‘ جو حجاج کے عہد امارت تک وہاں لٹکے رہے۔ مصعب بن زبیر رضی اللہ عنھما نے کوفہ پر قابض ہو کر ابراہیم بن مالک کو جو موصل پر قابض اور مختار کی طرف سے مامور تھا ایک خط لکھا کہ تم کو اب میری اطاعت کرنی چاہیئے‘ میں تم کو ملک شام کی سند دے دوں گا اور ساتھ ہی وعدہ کرتا ہوں کہ شام سے مغرب کی جانب جس قدر ممالک پر تم قبضہ کرتے چلے جائو گے وہ سب تمہاری جاگیر سمجھے جائیں گے‘ ادھر مختار کے مارے جانے کی خبر سن کر عبدالملک بن مروان نے دمشق سے ابراہیم کے پاس خط بھیجا‘ کہ تم میری اطاعت اختیار کر لو‘ میں تم کو عراق کی سند دے دوں گا اور جس قدر ممالک تم مشرق کی طرف فتح کرتے چلے جائو گے‘ وہ سب تمہاری حکومت میں شامل رہیں گے‘ دونوں طرف سے ایک ہی قسم کے خطوط ابراہیم کے پاس پہنچے‘ اس نے عبدالملک پر مصعب کو ترجیح دی‘ اور کوفہ میں آکر سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کی خلافت کو تسلیم کر کے مصعب کے ہاتھ پر بیعت کی۔ مصعب نے موصل و جزیرہ کی حکومت پر مہلب بن ابی صفرہ کو مامور کر کے بھیج دیا‘ اور ابراہیم کو اپنے پاس مہلب کی جگہ سپہ سالاری پر رکھا‘ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کو جب مختار کے مارے جانے اور کوفہ پر قبضہ ہونے کا حال معلوم ہوا تو انہوں نے مصعب کو کوفہ کی گورنری پر نامزد کر کے بصرہ کی گورنری پر اپنے بیٹے حمزہ بن عبداللہ کو بھیجا‘ حمزہ نے اہل بصرہ کو ناراض کر دیا اور انہوں نے سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کو خطوط لکھے‘ کہ حمزہ کو معزول کر کے مصعب کو بصرہ کی حکومت پر بھیج دیجئے‘ آخر ۶۸ھ میں مصعب کو بصرہ کی حکومت بھی عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما نے سپرد کر دی۔ عمرو بن سعید کا قتل اوپر بیان ہو چکا‘ کہ عبیداللہ بن زیاد ابن حرث کے مقابلہ اور محاصرہ میں ناکام رہ کر قرقیسا سے واپس گیا تھا‘ جب ابن زیاد مارا گیا تو عبدالملک نے فوج مرتب کر کے عراق پر حملہ آوری کا قصد کیا اور سب سے اول زفربن حرث کلبی والی قرقیسا پر حملہ کرنا ضروری سمجھا‘ چنانچہ عبدالملک نے اپنے ہمشیر زادے عبدالرحمن بن ام حکم کو دمشق