تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ابھی تک عیسائی مذہب میں داخل نہ ہوئے تھے اپنے ساتھ ملایا اور مسلمانوں کی تھوڑی سی جمعیت کے مقابلہ میں رومیوں اور بربریوں کی افواج کثیر نے میدان میں قدم جمایا‘ خوں ریز جنگ کے بعد مسلمانوں کو فتح کامل حاصل ہوئی۔ آخر شہر طنجہ پر رومی بطریق سے آخری مقابلہ ہوا جس میں اس رومی گورنر نے اپنے آپ کو عقبہ بن نافع کے حوالے کر دیا‘ عقبہ نے اسے آزاد کر دیا اور شہر طنجہ کو کوئی نقصان پہنچائے بغیر آگے بڑھے‘ پھر تمام ملک مراقش کو فتح کرتے ہوئے بحر ظلمات یعنی بحر اطلانتک کے ساحل تک پہنچ گئے‘ ساحل سمندر پر پہنچ کر عقبہ نے اپنا گھوڑا سمندر میں ڈال کر کہا۔ الٰہی یہ سمندر اگر میرے راستے میں حائل نہ ہو جاتا‘ تو جہاں تک زمین ملتی میں تیری راہ میں جہاد کرتا ہوا چلا جاتا۔ عقبہ کی شہادت ساحل سمندر سے ہٹ کر عقبہ نے قیروان کی جانب واپسی کا ارادہ کیا‘ اب تمام شمالی افریقہ فتوحات اسلامی میں شامل ہو چکا تھا‘ واپسی میں عقبہ نے فوج کے کئی حصے کر کے الگ الگ روانہ کئے‘ اور ایک حصہ اپنی معیت میں رکھا‘ سفر میں ایک مقام ایسا آیا کہ وہاں پانی دستیاب نہ ہوا‘ لوگ پیاس کے مارے مرنے لگے‘ عقبہ بن نافع نے جناب الٰہی میں دعا کی‘ اسی وقت ان کا گھوڑا اپنا پائوں زمین پر مارنے لگا اور وہیں سے چشمہ پھوٹ کر پانی بہنے لگا‘ تمام لشکر سیراب ہوا‘ اور اس چشمہ کانام ماء الفرس مشہور ہوا‘ جو آج تک اسی نام سے مشہور ہے۔ وہاں سے جب عقبہ اپنے چھوٹے لشکر کے ساتھ روانہ ہو کر مقام تہوذا میں پہنچے تو رومیوں اور بربریوں نے ان کے ساتھ تھوڑی سی جمعیت دیکھ کر مقابلہ کا ارادہ کیا‘ حالانکہ یہ سب مطیع و منقاد ہو چکے تھے‘ کسیلہ نے جو عقبہ کے ساتھ تھا اس موقعہ کو مناسب سمجھ کر اور جدا ہو کر رومیوں کی شرکت اختیار کی‘ اپنی قوم کی ہمت کو بھی بڑھایا اور ایک لشکر عظیم چڑھا لایا اور چاروں طرف سے اس قلیل جمعیت کو گھیر لیا‘ مٹھی بھر مسلمانوں نے تلواریں سونت لیں‘ اور دشمنوں کو قتل کرنے میں مصروف ہو گئے‘ بہت سے رومیوں اور بربریوں کو تلوار کے گھاٹ اتار کر لاشوں کے ڈھیر لگا دیئے‘ اور خود بھی ایک ایک کر کے شہید ہو گئے اور سیدنا عقبہ بن نافع کی آرزوئے شہادت پوری ہوئی۔ کسیلہ عقبہ کی شہادت کے بعد اپنا لشکر عظیم لیے ہوئے قیروان کی طرف بڑھا‘ قیروان میں جب عقبہ کے شہید ہونے اور لشکر عظیم کے قریب پہنچنے کی خبر پہنچی تو زہیر بن قیس نے مقابلہ کی تیاری کی‘ لیکن فوج کے اندر آپس میں اختلاف اور نا اتفاقی پیدا ہو گئی‘ زہیر بن قیس مشکلات پر غالب نہ آسکے‘ مجبوراً مسلمانوں کو قیروان چھوڑ کر برقہ کی طرف آنا پڑا‘ اور کسیلہ قیروان پر قابض و متصرف ہو گیا۔ یزید کی سلطنت پر ایک نظر یزید کی سلطنت تقریباً پونے چار سال رہی‘ اس کے دور حکومت میں افریقی فتوحات کے علاوہ مسلمانوں کو کوئی خاص فتح و کامیابی حاصل نہیں ہوئی‘ بلکہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیس سالہ حکومت وخلافت کے بعد اندرونی جھگڑوں اور بیرونی اقوام کی طرف سے غافل ہونے کا زمانہ شروع ہو گیا‘ یزید کے دامن پر سب سے بڑا داغ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا ہے‘ جس نے اس کے اور دوسرے معائب کو بھی