تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
شام کے صوبہ میں اردن حمص‘ دمشق‘ قنسرین کی ولایتیں شامل تھیں۔ مصر کے صوبہ میں کبھی افریقہ بھی شامل ہوتا تھا اور کبھی افریقہ کو مصر سے الگ صوبہ قرار دے کر قیروان کا گورنر دربار خلافت سے مقرر کیا جاتا تھا۔ اسی طرح اندلس کبھی الگ صوبہ قرار دیا جاتا تھا اور وہاں کا حاکم خلیفہ خود مقرر کرتا تھا اور کبھی اندلس کو قیروان کے امیر کے ماتحت کر کے صوبہ افریقہ میں شامل کر دیا جاتا تھا‘ اس حالت میں قیروان کا امیر خود اپنے اختیار سے اندلس میں کسی کو حاکم مقرر کرتا تھا۔ یہی کیفیت عراق وخراسان کی تھی‘ یعنی خراسان کبھی ایک الگ صوبہ ہوتا تھا اور وہاں کا گورنر یا امیر دربار خلافت سے مقرر ہوتا تھا اور کبھی خراسان کو صوبۂ عراق میں شامل کر دیا جاتا تھا‘ اس حالت میں خراسان کا حاکم گورنر عراق کی طرف سے مقرر کیا جاتا تھا۔ صوبوں کے امیروں اور ولایتوں کے والیوں کو اپنے متعلقہ ملکوں میں سیاہ وسفید کے کامل اختیارات حاصل ہوتے تھے‘ لیکن کبھی کبھی یہ بھی ہوتا تھا کہ محکمۂ مال کی افسری یعنی وصولیٔ خراج وجزیہ کے لیے دربار خلافت سے الگ کوئی اہل کار مقرر ہو جاتا تھا‘ دربار خلافت سے مقرر شدہ افسر مال اپنے آپ کو صوبہ یا ولایت کے حاکم کا ماتحت نہیں سمجھتا تھا‘ لیکن فوج کا سپہ سالار اور ملک کے امن و امان کا ذمہ دار ہمیشہ اس صوبہ کا امیر یا اس ولایت کا والی ہی ہوتا تھا۔ افسر مال کی طرح کبھی کبھی صوبہ کا امیر شریعت یا قاضیٔ اعظم بھی دربار خلافت سے مقرر ہو کر جاتا تھا‘ لیکن نمازوں کا امام ہمیشہ امیر یا گورنر ہی ہوتا تھا‘ یعنی نمازوں کی امامت اور سپہ سالاری لازم وملزوم تھی‘ بعد میں نمازوں کی امامت اور صوبہ کی امارت بھی جدا جدا ہونے لگی‘ تاہم جمعہ کا خطبہ حاکم صوبہ اور سپہ سالار اعظم ہی سے متعلق رہا۔ (آج یہ حقیقت جاہل مسلمانوں اور مسجد کے تنخواہ دار اماموں کی سمجھ میں کہاں آسکتی ہے)۔ بنوامیہ کے رقیبوں کی کوشش شہادت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے بعد ہاشمیوں اور امویوں میں جو رقابت پیدا ہوئی اس کا نتیجہ بحسب ظاہر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بعد سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے خلافت سے دست بردار ہو جانے پر یہ نکلا کہ بنوامیہ نے بنو ہاشم پر غلبہ پالیا اور بازی لے گئے‘ جمل اور صفین کی معرکہ آرائیوں اور خارجیوں کی لڑائیوں کے بعد خلافت کا بنوامیہ میں چلا جانا بنو ہاشم کی ایک ایسی ناکامی تھی کہ وہ خلافت کے حصول کے لیے اپنی تلواروں کو کند محسوس کر چکے تھے اور جلد طاقت کے استعمال پر آمادہ نہیں ہو سکتے تھے لیکن سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بعد یزید کا خلیفہ مقرر ہونا اور ولی عہدی کی بدعت کا ایجاد ہونا بنوامیہ کے لیے بے حد مضر اور ان کی کمزوری کا سامان تھا‘ لہٰذا سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے جرأت سے کام لیا اور اپنے ہمدردوں کی نصیحت پر عمل نہ کیا‘ جس کے نتیجے میں کربلا کا حادثہ رونما ہوا۔ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے کمزور جانشین یزید اور یزید کے غلط کار اہل کار ابن زیاد نے اپنے غلط اعمال سے بنو ہاشم کی ہمتوں کو تو زیادہ پست کر دیا لیکن ساتھ ہی حکومت بنوامیہ کی قبولیت کو نقصان پہنچا کر عام لوگوں کو بنوامیہ کی مخالفت کے اظہار پر دلیر بنا دیا‘ جس کے نتیجے میں ابن زبیر رضی اللہ عنہ کا واقعہ پیش آیا‘