تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مامون نے اہل خراسان کی تالیف قلوب کے لیے خراسان کا چوتھائی خراج معاف کر دیا اور خراسانی سرداروں سے ترقیات و قدر دانی کے بڑے بڑے وعدے کئے۔ اہل ایران خوش ہو ہو کر کہتے تھے کہ مامون الرشید ہمارا ہمشیر زادہ ہے اور وہ ضرور ہمارے مرتبہ اور اقتدار کو بڑھائے گا۔ ادھر مامون نے مرو کے علماء و فقہاء کو بلا کر کہا کہ آپ لوگ وعظ و پند کے ذریعہ لوگوں کے خیالات کی تربیت کریں اور حالات کو قابو میں رکھیں۔ ان تمام حالات کے موجود ہوتے ہوئے مامون الرشید نے سب سے بڑی عقل مندی یہ کی کہ امین الرشید کی خدمت میں مئودبانہ عرضی لکھ کر بھیجی اور ہدایا و تحف روانہ کر کے اپنی نیاز مندی و فرمانبرداری کا یقین دلانے کی کوشش کی۔ اگر خلیفہ امین الرشید کی طرف سے حزم و مآل اندیشی کے ساتھ کام لیا جاتا تو مامون الرشید ہی کی طرف سے ناجائز و ناشدنی حرکات کا ظہور ہو تا اور وہی ملزم قرار پا کر اہل عالم کی نگاہوں میں مطعون و بدنام ہوتا اور شاید اس کو کامیابی بھی حاصل نہ ہوتی۔ لیکن فضل بن ربیع اور دوسرے مشیر امین کے لیے اچھے مشیر ثابت نہ ہوئے اور امین سے کسی دانائی و ہوشیاری کا ظہور نہ ہوا بلکہ اس نے اپنے کاموں سے بہت جلد لوگوں کو یقین دلایا کہ وہ ہارون الرشید کے تخت کو سنبھالنے کی قابلیت نہیں رکھتا۔ اس نے تخت خلافت پر قدم رکھتے ہی پہلی غلطی یہ کی کہ اپنے بھائی قاسم یعنی موتمن کو جزیرہ کی حکومت سے معزول کر کے اس کے پاس صرف قنسیرین و عواصم کا صوبہ باقی رکھا اور جزیرہ کی حکومت پر اپنی طرف سے خزیمہ بن خازم کو مامور کر کے بھیج دیا۔ اسی سال یعنی اپنی خلافت کے ابتدائی ایام میں اس نے فضل بن ربیع کے مشورے سے اپنے بیٹے موسیٰ بن امین کو بجائے مامون کے ولی عہد بنانا چاہا اور مامون کو خود مخالفت کا موقعہ دے دیا۔ جس زمانہ میں ہارون الرشید خراسان کو جا رہا تھا تو اس نے یہ اعلان کر دیا تھا کہ یہ لشکر اور تمام سامان مامون الرشید کے پاس خراسان میں رہے گا اور مامون ہی اس کا مالک ہے۔ لیکن فضل بن ربیع تمام سامان اور تمام لشکر کو جو وفات ہارون کے وقت طوس میں موجود تھا‘ لے کر بغداد کی طرف چل دیا اور اس طرح مامون کو بہت کمزور کر گیا۔ اس لیے فضل بن ربیع کو یہ اندیشہ پیدا ہوا کہ اگر امین کے بعد مامون خلیفہ ہو گیا اور جلدی اس کو تخت خلافت پہنچ گیا تو وہ میرے ساتھ ضرور برا سلوک کرے گا۔ لہٰذا اس نے یہ کوشش کی کہ مامون کو ولی عہدی سے معزول کرا دیا جائے۔ یہی خطرہ علی بن عیسیٰ سابق گورنر خراسان کو بھی اپنی نسبت تھا۔ لہٰذا اس نے بھی فضل بن ربیع کے اس مشورہ کی تائید کی اور امین کو مامون کی معزولی پر آمادہ کر دیا۔ مگر خزیمہ بن خازم کے رو برو جب یہ مسئلہ پیش کیا گیا تو اس نے اس رائے کی سخت مخالفت کی اور خلیفہ کو سر دست اس کام سے روک دیا۔ یہ خبریں مامون کے پاس بھی پہنچتی تھیں۔ مگر اس نے ان کے متعلق بالکل خاموشی اختیار کی اور نتیجہ کا منتظر رہا۔ رافع اور ہرثمہ مامون کی خدمت میں اوپر بیان ہو چکا ہے کہ ہرثمہ بن اعین نے سمر قند میں رافع کا محاصرہ کر رکھا تھا اور رافع بن لیث ابھی مغلوب نہ ہوا تھا کہ طوس میں ہارون الرشید کا انتقال ہوا۔ رافع کا بھائی بشیر گرفتار ہو کر طوس میں ہارون کے پاس پہنچ کر اس کے حکم سے قتل ہو چکا تھا۔ ہارون کی وفات کے بعد ہرثمہ بن اعین نے بزور شمشیر سمر قند میں داخل ہو کر قبضہ