تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ترکوں اور مغلوں کے ساتھ جہاد کرنے کا موقع ملے گا۔ اگلے دن سلم ۶ ہزار چیدہ آدمی لشکر کوفہ سے لے کر خراسان کی طرف روانہ ہوا اور عبیداللہ بن زیاد کو واقعہ کربلا کے بعد ندامت و افسوس کے سوا کچھ اور حاصل نہ ہوا۔ مکہ ومدینہ کے واقعات یزید نے جب عمرو بن سعد رضی اللہ عنہ کو مدینہ سے کوفہ کی جانب عبیداللہ بن زیاد کے پاس روانہ ہونے کا حکم دیا تو عمرو بن سعد کی جگہ پھر ولید بن عتبہ کو مدینہ کا عامل بنا کر بھیج دیا تھا‘ یہی ولید بن عتبہ عامل مدینہ تھا جس نے عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ کی فرمائش سے ایک تحریر اس امر کی لکھ دی تھی کہ اگر سیدنا حسین مدینہ میں آجائیں تو ان کو امان ہے‘ یہ تحریر اپنے خط کے ساتھ عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے پاس اپنے بیٹوں عون و محمد کے ہاتھ بھیجی تھی‘ جب کہ آپ کوفہ کو جارہے تھے‘ مکہ سے یزید کی حکومت اٹھ چکی تھی‘ وہاں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ حکمران تھے‘ جب سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے شہید ہونے کی خبر مکہ میں پہنچی‘ تو عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما نے لوگوں کو جمع کر کے ایک تقریر کی اور کہا کہ: ’’لوگو! دنیا میں عراق کے آدمیوں سے برے کہیں کے آدمی نہیں ہیں اور عراقیوں میں سب سے بدتر کوفی لوگ ہیں کہ انہوں نے بار بار خطوط بھیج کر باصرار سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو بلایا اور ان کی خلافت کے لیے بیعت کی‘ لیکن جب ابن زیاد کوفہ میں آیا تو اسی کے گرد ہو گئے۔ اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو جو نماز گذار‘ روزہ دار‘ قرآن خوان اور ہر طرح مستحق خلافت تھے قتل کر دیا اور ذرا بھی اللہ تعالیٰ کا خوف نہ کیا‘‘۔ یہ کہہ کر عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما رو پڑے‘ لوگوں نے کہا کہ اب آپ سے بڑھ کر کوئی مستحق خلافت نہیں ہے‘ آپ ہاتھ بڑھائیے ہم آپ کے ہاتھ پر بیعت کرتے اور آپ کو خلیفہ وقت مانتے ہیں‘ چنانچہ تمام اہل مکہ نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کے ہاتھ پر بیعت کی‘ بیعت خلافت کی یہ خبر یزید کو پہنچی تو اس نے چاندی کی ایک زنجیر بنوا کر دو آدمیوں کے ہاتھ ولید بن عتبہ کے پاس مدینہ میں بھیجی اور کہا کہ عبداللہ بن زبیر کے گلے میں یہ زنجیر ڈال کر اور مکہ سے گرفتار کر کے میرے پاس بھیجو‘ لیکن بعد میں وہ اپنی اس حرکت پر خود ہی متاسف ہوا‘ کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما آسانی سے اپنے گلے میں زنجیر ڈلوانے والے نہیں ہیں‘ چنانچہ ولید بن عتبہ نے اس حکم کی کوئی تعمیل نہیں کی‘ یزید بھی یہ سوچتا رہا کہ کس طرح عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کو قابو میں لایا جائے‘ اور خانہ کعبہ کی حرمت کو بھی کشت و خون سے نقصان نہ پہنچایا جائے‘ ماہ ذی الحجہ ۶۱ھ میں حج کے لیے مکہ میں اطراف و جوانب سے لوگ آنے شروع ہوئے‘ یزید کی طرف سے ولید بن عتبہ عامل مدینہ امیر حج ہو کر مکہ میں گیا‘ ادھر عبداللہ بن زبیر جدا امیر حج تھے‘ غرض دونوں نے جدا جدا اپنے گروہ کے ساتھ حج کیا اور کسی نے کسی کی مخالفت نہ کی‘ ولید بن عتبہ نے ایسی تدبیریں شروع کر دیں کہ کسی طرح عبداللہ بن زبیر کو گرفتار کر کے زید کی خوشنودی حاصل کر سکے‘ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما ولید کے ارادوں سے واقف ہو گئے‘ اور انہوں نے ایام حج کے بعد مطمئن ہو کر یزید کو ایک خط لکھا کہ: ’’ولید اگرچہ تیرا چچازاد بھائی ہے‘ لیکن بہت ہی بے وقوف ہے اور اپنی بے وقوفی سے