تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کی طرف ملتفت ہوتا مگر فضل بن سہل نے اس موقعہ کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا اور جیل خانہ میں اس کو قتل کرا کر مامون کو اطلاع دے دی کہ ہرثمہ جیل میں فوت ہو گیا ہے۔ مامون کو ہرثمہ کے فوت ہونے کی خبر سن کر کوئی ملال نہیں ہوا اور اس کی وہ حالت جو پہلے سے قائم تھی اور جس کے تبدیل کرنے کے لیے ہرثمہ نے بیڑا اٹھایا تھا بدستور قائم رہی۔ اب بظاہر کوئی طاقت اور کوئی تدبیر ایسی نہ تھی جو اس کام کا بیڑا اٹھائے مگر قدرت نے خود ایسے سامان فراہم کر دئیے کہ فضل کو حسرت ناک موت کا سامنا کرنا پڑا۔ شورش بغداد ! ہرثمہ جب مرو کے جیل خانہ میں مقتول ہوا تو حسن بن سہل اس زمانہ میں بجائے بغداد کے نہروان میں مقیم تھا۔ بغداد میں جب ہرثمہ کے قتل ہونے کی خبر پہنچی تو یہاں ایک تلاطم برپا ہو گیا اور عام طور پر لوگوں کی زبان پر یہی تذکرہ آنے لگا کہ فضل بن سہل نے خلیفہ اور خلافت پر قبضہ کر لیا ہے اور وہ چونکہ مجوسی ابن مجوسی ہے اس لیے اب اہل عرب کو ذلتیں اٹھانی پڑیں گی۔ چنانچہ محمد بن ابی خالد نے اہل بغداد کو یقین دلایا کہ میں حسن بن سہل کو عراق سے خارج کر دوں گا۔ اہل بغداد نے اس کی اطاعت اختیار کی‘ محمد بن خالد نے فوج ترتیب دے کر بغداد کے عامل علی بن ہشام کو جو حسن بن سہل کی طرف سے بغداد میں مامور تھا نکال دیا۔ حسن بن سہل نے نہروان سے بغداد کی طرف فوجیں بھیجیں محمد نے سب کو شکست دے کر بھگا دیا۔ حسن بن سہل واسط میں پہنچا۔ وہاں پہنچے ہوئے اس کو زیادہ دن نہ ہوئے تھے کہ محمد بن ابی خالد بغداد سے واسط کی طرف فوج لے کر روانہ ہوا۔ حسن بن سہل یہ خبر سن کر واسط سے چل دیا۔ محمد بن ابی خالد نے واسط میں داخل ہو کر قبضہ کیا اور حسن بن سہل کے تعاقب میں فوراً روانہ ہو گیا۔ حسن بن سہل نے لوٹ کر مقابلہ کیا اتفاقاً محمد بن ابی خالد کو شکست ہوئی۔ محمد بن ابی خالد نے جرجرایا میں آ کر قیام کیا اور اپنی حالت درست کر کے پھر حسن بن سہل کا مقابلہ کیا‘ متعدد لڑائیاں ہوئیں ایک لڑائی میں محمد بن ابی خالد سخت زخمی ہو گیا‘ اس کا بیٹا اس کو لے کر بغداد میں آیا۔ یہاں آتے ہی محمد بن ابی خالد فوت ہو گیا‘ اس کے بعد اہل بغداد نے منصور بن مہدی بن منصور عباسی کو خلیفہ بنانا چاہا مگر منصور نے انکار کیا۔ آخر بڑے اصرار کے بعد منصور کو اس بات پر رضا مند کر لیا کہ خلیفہ مامون ہی رہے اسی کا نام خطبہ میں لیا جائے مگر بجائے حسن بن سہل کے نائب السلطنت منصور بن مہدی رہے۔ چنانچہ ماہ ربیع الاول ۲۰۱ھ میں منصور بن مہدی نے بغداد کی حکومت اپنے ہاتھ میں لی اور عیسیٰ بن محمد بن ابی خالد سپہ سالار لشکر مقرر ہوا۔ حسن بن سہل نے اب اپنی حالت کو درست کر کے منصور بن مہدی کے مقابلہ پر فوجیں بھیجیں اور لڑائیوں کا سلسلہ جاری رہا۔ یہاں یہ ہنگامہ آرائیاں ہو رہی تھیں۔ ادھر مرو میں مامون الرشید بالکل بے خبر اور مطمئن تھا‘ کیونکہ فضل بن سہل نے اس کے پاس براہ راست خبر پہنچنے کا کوئی ذریعہ باقی نہیں رکھا تھا۔ منصور بن مہدی اور حسن بن سہل کی معرکہ آرائیوں کے زمانے میں بغداد کے اوباشوں اور بدمعاشوں کو آزادی کے ساتھ بدمعاشیوں کے ارتکاب کا خوب موقعہ مل گیا۔ لوٹ کھسوٹ‘ ڈاکہ زنی‘ چوری‘ زنا‘ ظلم و تعدی کی وارداتیں بکثرت ہونے لگیں اور منہیات شرعیہ کے علانیہ ارتکاب میں کوئی حجاب و تامل باقی نہ رہا۔ یہ بدعنوانیاں جب بڑھتے