تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مستولی ہو گیا۔ اسی سال محمد بن علی رضا بن موسیٰ کاظم بن جعفر صادق فوت ہو کر بغداد میں مدفون ہوئے۔ فضل بن مروان کی معزولی اسی سال یعنی ۲۲۰ھ میں وزیراعظم فضل بن مروان کی نسبت خلیفہ کے کانوں میں بد دیانتی کی شکایات پہنچیں۔ خلیفہ نے حسابات کی جانچ پڑتال کے لیے اہل کار مامور فرمائے تو دس لاکھ دینار کا غبن نکلا۔ خلیفہ نے یہ روپیہ فضل کے مال و اسباب سے وصول کیا۔ اور اس کو موصل کے قریب کسی گائوں میں نظر بند کر دیا اور فضل کی جگہ محمد بن عبدالملک بن ابان بن حمزہ کو وزیراعظم مقرر کیا۔ محمد بن عبدالملک‘ ابن زیات کے نام سے مشہور ہے‘ کیونکہ اس کا دادا ابان ایک گائوں میں رہتا اور وہاں سے تیل لا کر بغداد میں بیچا کرتا تھا۔ محمد بن عبدالملک نے بغداد میں تعلیم و پرورش پائی تھی اور اعلیٰ قابلیت کو پہنچ گیا تھا۔ اس کی وزارت کا زمانہ معتصم‘ واثق اور متوکل تک ممتد ہوا۔ خلیفہ ہارون الرشید کے زمانے میں جس طرح قاضی یحییٰ بن اکثم اگرچہ وزیر نہ تھے مگر وزیراعظم سے زیادہ اختیارات اور اثر رکھتے اور ہر وقت مامون کے ساتھ رہتے تھے‘ اسی طرح معتصم کے پاس قاضی یحییٰ بن اکثم کے ایک شاگرد احمد بن ابی دائود رہتے تھے۔ وہ بھی اگرچہ وزیراعظم نہ تھے مگر وزیراعظم کے برابر ہی اثر و اقتدار کھتے تھے۔ یہ دونوں استاد شاگرد متکلم و معتزلی تھیں‘ مسئلہ خلق قرآن کی نسبت جو مامون و معتصم نے علماء پر زیادتیاں کی ہیں‘ وہ انھیں دونوں بزرگوں کی تحریک و خواہش کا نتیجہ بیان کی جاتی ہیں۔ مگر صرف احمد ابن ابی دائود ہی ایک شخص معتصم کے دربار میں تھے جو اہل عرب کے حامی و ہوا خواہ تھے اور انھیں کی وجہ سے عرب تھوڑی بہت عزت دارالخلافہ میں رکھتے تھے‘ ورنہ ہر طرف ترکوں یا ان کے بعد ایرانیوں کا غلبہ نظر آتا تھا۔ بابک خرمی اور افشین حیدر بابک خرمی کا ذکر اوپر آ چکا ہے کہ مامون الرشید کے ہر ایک سپہ سالار کو جو اس کے مقابلہ پر گیا بابک نے شکست دی اور کسی سے زیر نہ ہوا۔ شہر ہذا کو اس نے اپنا مستقر بنا رکھا تھا اور ارد گرد کے تمام علاقہ پر اس کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی۔ قرب و جوار کے عمال و رئوسا سب اس سے ڈرتے اور اس کی خوشنودی کے لیے اس کے آدمیوں کی خاطر مدارات کرتے رہتے تھے۔ خلیفہ معتصم نے ابو سعید محمد بن یوسف کو بابک کی سرکوبی پر مامور کیا۔ ابوسعید نے اول اردبیل و آذربائیجان کے درمیان ان تمام قلعوں کی مرمت کرائی جو بابک نے خراب و مسمار کر دئیے تھے۔ پھر سامان رسد اور آلات حرب کی فراہمی کے بعد بابک کی طرف بڑھنے کی تیاری کی۔ بابک خرمی کے ایک دستہ فوج نے انھیں بلاد میں سے کسی ایک مقام پر شب خون مارا۔ ابو سعید کو اس شب خون کا حال معلوم ہوا تو وہ فوراً اپنی فوج لے کر تعاقب میں روانہ ہو گیا‘ اور بابک کی اس فوج کے قریب پہنچ کر معرکہ آرا ہوا۔ اس لڑائی میں بابک کی فوج کو شکست ہوئی۔ بہت سے آدمی اس کے ابو سعید نے گرفتار اور بہت سے قتل کیے اور وہ تمام سامان جو شب خون مار کر لے گئے تھے چھین لیا۔ یہ پہلی ہزیمت تھی جو بابک خرمی کی فوج کو حاصل ہوئی۔