تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
عربوں کی حالت یہ ہے کہ ایک لقمہ ان کو دے دو اور خوب پتھروں سے ان کا سر کچلو‘ خراسانیوں کا جوش دودھ کا سا ابال ہے‘ اٹھا اور فرو ہو گیا۔ تھوڑے سے استقلال میں ان کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ تم اگر ذرا ہمت کرو تو وہی دین مذہب جو ملوک عجم کے زمانے میں تھا پھر قائم و جاری ہو سکتا ہے‘‘۔ مازیار اس خط کو پڑھ کر خوش ہوا اور اس نے علم بغاوت بلند کر دیا۔ رعایا سے ایک سال کا پیشگی خراج وصول کر کے سامان حرب کی فراہمی اور قلعوں کی مرمت و درستی سے فارغ ہو کر بڑی سے بڑی فوج کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہو بیٹھا‘ عبداللہ بن طاہر کو جب مازیار کی بغاوت و سرکشی کا حال معلوم ہوا تو اس نے اپنے چچا حسن بن حسین کو ایک لشکر کے ساتھ اس طرف روانہ کیا۔ ادھر معتصم کو اس بغاوت کا حال معلوم ہوا تو اس نے دارالخلافہ اور دوسرے مقامات سے عبداللہ بن طاہر کی امداد کے لیے فوجوں کی روانگی کا حکم صادر کیا‘ مگر افشین کو اس طرف جانے کا حکم نہیں دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مازیار گرفتار ہو کر عبداللہ بن طاہر کی خدمت میں پیش کیا گیا‘ عبداللہ بن طاہر نے اس کو معتصم کی خدمت میں روانہ کر دیا اور معتصم نے اس کو جیل خانے بھیج دیا۔ حسن بن حسین نے جب مازیار کو گرفتار کیا تو اتفاق سے افشین کا مذکورہ خط اور اس کے علاوہ اسی مضمون کے اور بھی خطوط جو افشین نے مازیار کے پاس بھیجے تھے مازیار کے پاس سے برآمد ہوئے۔ عبداللہ بن طاہر نے یہ خطوط بھی خلیفہ معتصم کے پاس بھیج دئیے۔ مگر خلیفہ معتصم نے ان خطوط کو لے کر اپنے پاس بحفاظت رکھ تو لیا اور بظاہر کوئی التفات اس طرف نہیں کیا۔ یہ واقعہ ۲۲۴ھ کا ہے۔ بغاوت کر دستان ادھر طبرستان کی بغاوت ابھی فرو نہ ہونے پائی تھی کہ نواح موصل میں جعفر بن فہر نامی ایک کرد نے کردوں کا ایک گروہ کثیر اپنے گرد جمع کر کے علم بغاوت بلند کر دیا۔ اس صوبہ کی سرحد اگرچہ صوبہ آذربائیجان و آرمینیا سے ملتی تھی مگر معتصم نے عبداللہ بن سید بن انس کو جعفر کی سرکوبی پر مامور کیا۔ اور افشین کو اس مہم پر نہیں بھیجا۔ عبداللہ بن سید نے پہنچ کر صف آرائی شروع کی‘ ان لڑائیوں کا سلسلہ ۲۲۴ھ کے ختم ہونے پر بھی ختم نہ ہوا۔ آخر معتصم نے اپنے ایک سپہ سالار ایتاخ کو نہایت زبردست لشکر کے ساتھ روانہ کیا اور جعفر بن فہر لڑائی میں مارا گیا۔ اس کے ہمراہی گرفتار و مقتول ہوئے۔ یہ بغاوت بھی غالباً افشین کے اشارے سے ظہور میں آئی‘ جو ۲۲۵ھ میں ختم ہوئی۔ بغاوت آرمینیا و آذر بائیجان افشین اپنے ایک رشتہ دار کو جس کا نام منکجور تھا اپنا قائم مقام بنا کر اور آذربائیجان کی حکومت سپرد کر کے خود دارالخلافہ میں سکونت پذیر تھا۔ منکجور کو آذربائیجان کے کسی قصبہ میں بابک خرمی کا بہت سا خزانہ مل گیا۔ منکجور نے اس کی اطلاع خلیفہ کو نہیں کی اور خود اپنا قبضہ کر لیا‘ معتصم کے پرچہ نویس نے اس کی اطلاع معتصم کو دی۔ منکجور کو اس کا حال معلوم ہوا تو وہ پرچہ نویس کے قتل پر آمادہ ہو گیا۔ پرچہ نویس نے باشندگان اردبیل سے پناہ طلب کی۔ اہل اردبیل نے منکجور کو اس حرکت سے باز رکھنا چاہا تو وہ ان کے بھی درپئے قتل ہو گیا۔ معتصم کو جب یہ حال معلوم ہوا تو اس نے منکجور کی معزولی کا فرمان افشین کے پاس بھیج دیا۔ اور بغاکبیر کو بجائے منکجور کے