تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
پہلے برمکی خاندان کی مختصر تاریخ‘ اس کے بعد وہ غلط اور سراپا دروغ روایت جو جاہل احمقوں میں شہرت پا چکی اور بہت سے پڑھے لکھوں کی زبان سے ادا ہو چکی ہے اس کا بیان‘ اس کے بعد حقیقت اصلیہ بیان ہو گی۔ وباللہ التوفیق۔ خاندان برمک ایرانیوں میں سب سے قدیم مہ آبادی مذہب تھا‘ جس میں ستارہ پرستی زیادہ اور آتش پرستی کم تھی۔ مہ آباد کے بعد اس کے مذہب کی تجدید کے لیے یکے بعد دیگرے بہت سے پیغمبر بطور مجدد آئے۔ ان سب کے بعد شت و خشور زردشت کا ظہور ہوا۔ زردشت نے جس مذہب۱؎ کو رواج دیا اللہ تعالیٰ جانے اس کی اصلی صورت کیا ہو گی۔ مگر آج کل جو کچھ پتہ چلتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زردشت کی شریعت میں آتش پرستی زیادہ اور ستارہ پرستی کم تھی۔ زردشت کی زندگی ہی میں اس کا مذہب شاہی مذہب ہو کر ایران کے اکثر حصے میں پھیل گیا تھا۔ اسفند یار کی پہلوانی دروئین تنی نے افغانستان و پنجاب تک اس مذہب کو پھیلایا اور ہندوستان کے اعلم العلماء و شمس الفضلا سنگراچہ و بیاس جی نے زردشت کے پاس بلخ میں حاضر ہو کر بیعت کی اور ہندوستان میں واپس آ کر آتش پرستی کی اشاعت شروع کی‘ جس کی یادگار اب تک ہندوئوں میں ہون کی شکل میں نمودار ہے۔ زردشت اور اس کے مرید باخاص تارک السلطنت بادشاہ لہرا سب کا آخری قیام گاہ بلخ ہی تھا۔ بلخ کو دین آتش پرستی کے ساتھ وہی تعلق ہے جو بیت المقدس یا یروشلم کو عیسویت کے ساتھ یا بودھ مت کو گیا جی کے ساتھ ہے۔ سکندر یونانی نے اصطخر‘ سمر قند‘ کانگڑہ‘ کراچی‘ بابل کا درمیانی رقبہ انپی تاخت و تاراج سے بالکل تہ و بالا کر دیا تھا۔ یہی رقبہ کیانی خاندان کی آتش پرست سلطنت کا محکوم و مغلوب رقبہ تھا‘ اسی رقبہ میں آتش پرستی رائج تھی۔ یونانیوں کے سیلاب نے کیانیوں کی حکومت کے ساتھ ہی آتش پرستی کو ٹھنڈا کر دیا۔ سینکڑوں برس کے بعد یونانیوں کے شکنجے سے ایرانیوں کی گردنیں چھوٹیں اور ساسان اول نے ایرانی طائف الملوکی کو پھر ایک شہنشاہی کی شکل میں تبدیل کر کے دین زردشتی کی خاکستر میں سے چنگاریاں نکال کر جا بجا آتش کدے روشن کر دئیے۔ ۱؎ زرتشت نے آتش پرستی یعنی آگ کی پوجا کرنے کا مذہب پھیلایا یعنی خالص شرکیہ مذہب۔ اب یہ پارسی مذہب کہلاتا ہے۔ بلخ کو چینیوں نے زردشت ہی کے زمانے میں حملہ کر کے ویران کر دیا تھا۔ لیکن بلخ چند ہی روز کے بعد پھر آباد اور آتش پرستوں کا قبلہ تھا۔ سکندری سیلاب نے بلخ کی گرم بازاری کو سرد کر دیا تھا‘ لیکن راسخ العقیدت زردشتیوں کا وہ بدستور امید گاہ تھا۔ ساسانیوں کے عہد میں اس کی عظمت نے دوبارہ عہد شباب پایا۔ جب قادسیہ نہاوند کے میدانوں میں ساسانی سلطنت کے سانس پورے ہو گئے تو بلخ کے آتش کدے کی رونق اور بھی زیادہ بڑھ گئی۔ کیونکہ ایران کا شکست خوردہ شہنشاہ اور دربار ایران کے بقیہ مفرور سرداروں کا جمگھٹ بلخ ہی کی طرف متوجہ ہو کر بلخ کے آتش کدہ موسومہ نوبہار میں مصروف یزداں۱؎ پرستی ہوا۔ اس زمانہ میں نو بہار کے مغ اعظم کی شان و عظمت قابل دید ہو گی اور وہ دین آتش پرستی کے سرپرست اعظم شہنشاہ۲؎ ایران کی بربادی و بے کسی دیکھ دیکھ کر سب سے زیادہ متاثر ہوا ہو گا‘ وہ سوچتا ہو گا کہ جس دین کے پیشوائوں میں میرا شمار ہے وہ دین ہی اب ذلیل و برباد ہونے والا ہے اور اس کے ساتھ ہی میری اور میرے خاندان کی عظمت بھی رخصت ہوا چاہتی ہے۔