تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سے ایک صاحب البرید یعنی پوسٹ ماسٹر جنرل مقرر ہوتا تھا‘ جس کا کام شاہی ڈاک کی روانگی اور قاصدوں کے لیے راستہ کی چوکیوں میں سواریوں کا بندوبست کرنا ہوتا تھا‘ اسی کے زیر اہتمام ہر ایک منزل پر گھوڑوں‘ خچروں یا اونٹوں کی ایک مناسب تعداد ہمہ اوقات موجود و مستعد رہتی تھی۔ صاحب البرید کا یہ بھی فرض ہوتا تھا کہ وہ اپنے صوبہ کے تمام اہم حالات اور ضروری واقعات کی خبریں بہم پہنچائے اور دربار خلافت کو اس کی اطلاع دے‘ صاحب البرید کے ماتحت جاسوسوں کی بھی ایک جمعیت رہتی تھی جس کے ذریعہ وہ اس صوبہ کی رعایا‘ وہاں کے حکام اور صیغوں کے حالات سے خلیفہ کو اطلاع دیتے رہتے تھے‘ صاحب البرید ہر ایک شہر میں اپنا ایک نائب مقرر کرتا تھا۔ اسی محکمہ کے ذریعہ رعایا کے خطوط بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچا دیے جاتے تھے‘ اسی صاحب البرید کے ماتحت نامہ بر کبوتروں کا بھی اہتمام رہتا تھا۔ صاحب البرید کے پاس ایک ایسا رجسٹر بھی رہتا تھا جس میں ہر ایک ڈاک خانہ اور چوکی کا فاصلہ سمت اور وہاں کے عملہ کی فہرست درج رہتی تھی۔ کاتب خلیفہ ایک شخص کو اپنا کاتب یا میر منشی مقرر کرتا تھا‘ یہ بھی وزراء میں شمار ہوتا تھا‘ اس کا کام خلیفہ کو باہر کی آئی ہوئی تحریریں سنانا‘ فرامین لکھنا اور خلیفہ کے حکم کے موافق احکام جاری کرنا اور ضروری دستاویزوں کو حفاظت سے رکھنا ہوتا تھا۔ اسی کے ماتحت مختلف صیغوں کے دفاتر ہوتے تھے۔ مثلاً شاہی فرامین کی نقل محفوظ رکھنے کا دفتر‘ محکمہ رجسٹری‘ دیوان الجیوش‘ دیوان النفقات وغیرہ۔ امیر المنجنیق یہ فوجی انجینئر کا کام دیتا تھا‘ سفر مینا کی پلٹن بھی اسی کے ماتحت ہوتی تھی‘ راستوں کا بنانا‘ میدان جنگ اور کیمپ کے لیے جگہ کا انتخاب کرنا‘ دشمن کے قلعوں کو مسمار کرنا‘ قلعے و مدمے اور مورچے بنانا اس کا کام تھا‘ قلعوں کے محاصرہ کرنے میں اس کے مشوروں‘ اور تجویزوں کو ہمیشہ خصوصی اہمیت حاصل ہوتی تھی۔ امیر التعمیر یا رئیس البناء یہ چیف انجینئر ہوتا تھا‘ محلات شاہی کی تعمیر و مرمت‘ شہروں کی آبادی کا تعمیری کام‘ نہروں کا نکالنا‘ پلوں کا بنانا‘ بند باندھنا وغیرہ سب اسی کا کام تھا۔ امیر البحر جنگی جہازوں اور بحری فوجوں کے افسر کو امیر البحر کہتے تھے‘ امیر البحر کے ماتحت بہت سے قائد ہوتے تھے۔ ہر ایک قائد کے ماتحت ایک جنگی جہاز ہوتا تھا‘ قائد کو کپتان سمجھنا چاہیئے۔ طبیب ایک سے زیادہ تجربہ کار و ہوشیار طبیب دارالخلافہ میں موجود اور دربار میں حاضر رہتے تھے‘ علمی مجالس میں ان کی شرکت ضروری تھی‘ ان کے ماتحت دارالشفاء اور دواخانے سرکاری مصارف سے جاری تھے‘ ان میں ہر ملک اور ہر مذہب کے طبیب شامل تھے‘ ان میں سے اکثر دارالتصانیف‘ دارالترجمہ اور بیت الحکمۃ کی رونق و عزت کا موجب تھے۔