تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
رعب و عظمت کو صدمہ پہنچا‘ اور سبائی تحریک سے فائدہ اٹھانے کے لیے سلطنت اسلامیہ کے خلاف کوششوں کا سلسلہ بھی سلسلہ حکومت کے متوازی جاری رہا۔ آخر اموی یا مروانی خلفاء کے بعد عباسی تخت خلافت پر قابض ہوئے اور ان کے قابض ہوتے ہی حکومت اسلامیہ کی تقسیم شروع ہو گئی‘ عباسیوں کی حکومت سے پیشتر بنو امیہ تمام عالم اسلامی پر حکومت کرتے تھے اور مرکز خلافت ایک ہی تھا لیکن عہد عباسیہ کی ابتداہی میں اندلس کا ملک جدا ہو گیا اور وہاں ایک الگ حکومت قائم ہوئی جس کو خلفاء عباسیہ سے کوئی تعلق نہ تھا‘ اس کے بعد مراکو‘ اس کے کتاب المناقب والفضائل‘ حدیث ۶۰۱۴) ۱؎ حادثہ کربلا ایک بہت بڑی سازش کے نتیجہ میں پیش آیا۔ اس سازش میں سبائی گروہ اور مجوسی النسل لوگ شامل تھے اور یہ سازش یہ تھی کہ جناب حسین رضی اللہ عنہ اور اہل بیت کو خلافت اسلامیہ سے ٹکرا دیا جائے۔ مختصراً ہمیں اسی ایک نقطہ پر نگاہ کو مرکوز کرنا ہو گا کہ جن ہزاروں کوفیوں نے حسین کو کوفہ میں آنے کی دعوت دی تھی‘ آپ کے تشریف لے جانے پر وہ سب بے وفا اور جھوٹے نکلے اور ان کے خطوط ظاہر ہونے پر سب نے اپنے تحریر کردہ خطوط کی تردید کر دی۔ بعد افریقیہ اور اسی طرح یکے بعد دیگرے بجائے ایک سلطنت اسلامیہ کے بہت سی اسلامی سلطنتیں قائم ہو گئیں۔ خلافت بنو امیہ کے بعد خلافت عباسیہ کا حال بھی ہم ختم کر چکے‘ لیکن دوسری سلطنتوں کو جو اس خلافت کے ابتدائی زمانے سے کٹ کٹ کر الگ الگ قائم ہوتی رہی ہیں چھوڑتے چلے آتے ہیں‘ لہٰذا خلافت عباسیہ سے فارغ ہونے کے بعد اب تیسری جلد میں ہم کو ان کے حالات مطالعہ کرنے ہیں‘ اس جگہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مضامین اور واقعات کے تسلسل کو ذہن نشین کرانے کے لیے حکمران خاندانوں کا ایک مجمل خاکہ پیش کر دیا جائے۔ ہسپانیہ! ہسپانیہ کو مسلمانوں نے فتح کر کے ۹۳ھ میں اپنی حکومت قائم کر لی تھی اور یہ ملک خلفاء بنو امیہ کا ایک صوبہ بن گیا تھا‘ ۱۳۸ھ تک وہاں خلفائے بنو امیہ کی طرف سے مثل اور صوبوں کے امیر و عامل مقرر ہو کر آتے اور حکومت کرتے رہے‘ جب عباسیوں نے اموی حکومت کو برباد کر دیا اور خود قابض و متصرف ہو گئے تو امویوں کے دسویں خلیفہ ہشام کا پوتا عبدالرحمن کسی نہ کسی طرح عباسیوں کی تیغ خوں آشام سے بچ کر اندلس پہنچ گیا اور ۱۳۸ھ میں وہاں پہنچ کر اپنی حکومت قائم کر لی‘ لشکر عباسیہ نے حملہ کیا تو اس کو بھی شکست دی اور اندلس کے شہر قرطبہ (کارڈوا) کو دارالسلطنت بنا کر اپنی شاندار حکومت کی ابتداء کی‘ یہ حکومت اس کے خاندان میں ۴۲۲ھ تک رہی۔ ان اندلسی خلفاء کی شان و شکوہ اور قوت و عظمت نے تمام براعظم یورپ کو مبہوت کر دیا‘ اور ان کی تہذیب و علمی دوستی نے تمام دنیا سے خراج تحسین حاصل کیا‘ ان کے کار نامے بنو عباس کے کارناموں سے زیادہ دلچسپ اور زیادہ سبق آموز ہیں۔ ۴۲۲ھ میں اندلس میں طائف الملوکی شروع ہوئی اور اموی خاندان کی پر شوکت خلافت کا خاتمہ ہو گیا۔ اندلس کی اموی خلافت کے بعد اندلس کا ملک چھوٹی چھوٹی مسلمان ریاستوں میں تقسیم ہو گیا‘ جنھوں نے قرطبہ‘ اشبیلیہ‘ غرناطہ‘ بلنشیہ‘ طلیطلہ‘ مالقا وغیرہ شہروں کو اپنا اپنا دارالحکومت بنایا‘ چند روز کے بعد شمالی افریقہ کے مسلمان حکومتوں نے اندلس کے اکثر حصے کو اپنے ماتحت بنایا۔۱؎