تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
معاویہ اپنی خلافت اورلوگوں سے بیعت لینے کا خواہش مند نہ تھا ‘وہ کچھ بیمار بھی تھا‘ اور اس حالت بیماری ہی میں اس کے ہاتھ پر بیعت کی گئی‘ اس نے لوگوں کے اصرار سے مجبور ہو کر بیعت لی‘ اور صرف چالیس روز یا دوسری روایت کے موافق دو ماہ اور تیسری روایت کے موافق تین ماہ خلافت کر کے فوت ہوا‘ اور وہ اس قلیل مدت میں کوئی قابل تذکرہ کام نہیں کر سکا۔ معاویہ بن یزید کی وفات معاویہ کے مرض نے جب ترقی کی تو لوگوں نے کہا کہ اپنے بعد کسی کو خلافت کے لیے نامزد کر دو‘ معاویہ نے کہا کہ میں پہلے ہی اپنے اندر خلافت کی طاقت نہیں پاتا تھا‘ تم لوگوں نے زبردستی مجھ کو خلیفہ بنایا‘ میں نے سوچا کہ کوئی شخص عمر فاروق کی مانند مل جائے‘ تو اس کو خلافت سپرد کر دوں لیکن نہیں ملا‘ پھر میں نے چاہا کہ جس طرح سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے چند شخصوں کو نامزد کر دیا تھا کہ ان کے بعد وہ خلیفہ کو منتخب کریں اسی طرح میں بھی چند شخصوں کو نامزد کر دوں‘ لیکن میری نگاہ میں ایسے اشخاص بھی نہیں آئے۔ لہٰذا اب میں اس معاملہ میں کچھ نہیں کہتا‘ تم کو اختیار ہے جس کو چاہو خلیفہ بنائو‘ مجھے کوئی سروکار نہیں‘ یہ کہہ کر معاویہ نے لوگوں کو باہر نکلوا کر اپنی محل سرائے کا دروازہ بند کرا لیا اوراس کے بعد اس کا جنازہ ہی محل سرائے سے نکلا۔ بصرہ میں ابن زیاد کی بیعت معاویہ بن زید کی خلافت کو صرف اہل شام اور اہل مصر نے تسلیم کیا تھا‘ اہل حجاز نے سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کے ہاتھ پر بیعت کی تھی‘ یزید کے مرنے کی خبر جب عراق میں پہنچی تو اس وقت عبیداللہ بن زیاد بصرہ میں تھا‘ اس نے اہل بصرہ کو جمع کر کے کہا کہ امیر المومنین یزید کا انتقال ہو گیا ہے‘ اب کوئی ایسا شخص نظر نہیں آتا جو خلافت کے کاموں کو چلانے کی قابلیت رکھتا ہو‘ میں اسی ملک میں پیدا ہوا اور یہیں میں نے پرورش پائی‘ میرا باپ بھی اس ملک کا حاکم تھا اور اب میں بھی اسی ملک کا حاکم ہوں‘ آمدنی پہلے سے زیادہ ہے‘ خزانہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہے‘ لوگوں کی تنخواہیں اور وظیفے بھی اب پہلے سے زیادہ ہیں‘ مفسد اور شریر لوگوں سے ملک پاک و صاف ہے‘ تم لوگ اگر چاہو تو اپنی الگ خلافت قائم کر سکتے ہو‘ کیوں کہ تم اہل شام کے محتاج نہیں ہو۔ یہ تقریر سن کر سب نے کہا کہ بہت مناسب ہے‘ ہم آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے لیے تیار ہیں۔ چنانچہ اہل بصرہ نے عبیداللہ بن زیاد کے ہاتھ پر بیعت کر لی‘ مگر دل سے وہ عبیداللہ کو ناپسند کرتے تھے‘ اہل بصرہ سے بیعت لے کر عبیداللہ کوفہ کی طرف گیا‘ کہ وہاں کے لوگوں سے بھی بیعت لے‘ لیکن کوفہ والوں نے صاف انکار کر دیا۔ اہل بصرہ کو جب معلوم ہوا کہ اہل کوفہ ابن زیاد سے منحرف ہو گئے‘ تو انہوں نے بھی اپنی بیعت فسخ کر دی‘ ابن زیاد مجبور اور مایوس ہو کر عراق سے بھاگا اور دمشق پہنچا‘ یہ دمشق میں اس وقت پہنچا تھا جب کہ معاویہ بن یزید فوت ہو چکا تھا اور انتخاب خلیفہ کے متعلق ملک شام میں جھگڑا اور نزاع برپا تھا۔ عراق میں ابن زبیر رضی اللہ عنہ کی خلافت اہل کوفہ کی حالت یہ تھی کہ حادثہ کربلا کے بعد ان لوگوں کے دلوں میں سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت نے اندر ہی اندر ایک اثر پیدا کیا‘ جنہوں نے حسین رضی اللہ