تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
’’میرے پاس اب کوئی آدمی نہیں رہا‘ برائے نام صرف پانچ آدمی باقی ہیں جو میرا ساتھ دینے پر بظاہر اب تک آمادہ ہیں‘ لوگوں نے میرے ساتھ اسی طرح دھوکے کا برتائو کیا‘ جیسا حسین بن علی رضی اللہ عنھما کے ساتھ کیا تھا‘ لیکن ان کے بیٹے جب تک زندہ رہے باپ کے سامنے تلوار لے کر دشمنوں سے لڑتے رہے‘ میرے تو بیٹے بھی اس فاسق کی امان میں چلے گئے‘ اب حجاج کہتا ہے‘ کہ تم بھی امان میں آجائو‘ اور جو کچھ مانگو ہم دینے کو تیار ہیں‘ پس میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں کہ آپ کیا حکم دیتی ہیں‘‘۔ سیدنا اسماء رضی اللہ عنھا نے جواب دیا کہ: ’’تم اپنے معاملے کو مجھ سے بہتر سمجھتے ہو‘ اگر تم حق پر ہو‘ اور حق کی طرف لوگوں کو بلاتے ہو‘ تو اس کام میں برابر مصروف رہو‘ تمہارے ساتھی بھی راہ حق میں شہید ہوئے‘ اور تم بھی اسی راہ پر گامزن رہ کر شہادت حاصل کرو‘ اگر تم نے دنیا حاصل کرنے کا قصد کیا تھا‘ تو تم بہت ہی نالائق آدمی ہو‘ تم خود بھی ہلاکت میں پڑے‘ اور تم نے اپنے ہمراہیوں کو بھی ہلاکت میں ڈالا‘ میری رائے یہ ہے کہ تم اپنے آپ کو بنوامیہ کے حوالے نہ کرو‘ موت اپنے وقت پر ضرور آجائے گی‘ تم کو مردوں کی طرح جینا اور مردوں کی طرح مرنا چاہیئے‘ تمہارا یہ کہنا کہ میں حق پر تھا‘ اور لوگوں نے مجھ کو دھوکہ دے کرکمزور کر دیا ایک ایسی شکایت ہے جو نیک آدمیوں کی زبان پر نہیں آیا کرتی‘‘۔ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما نے کہا کہ: ’’مجھ کو اس بات کا خوف ہے کہ وہ لوگ قتل کرنے کے بعد مجھ کو مثلہ کریں گے اور صلیب پر لٹکائیں گے‘‘۔ سیدنا اسماء رضی اللہ عنھا نے جواب دیا کہ: ’’بیٹا بکری جب ذبح کر ڈالی گئی‘ تو اسے اس کی کیا پرواہ ہو سکتی ہے کہ اس کی کھال کھینچی جاتی ہے‘ تم جو کچھ کر رہے ہو بصیرت کے ساتھ کئے جائو اور اللہ تعالیٰ سے امداد طلب کرتے رہو‘‘۔ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما نے ماں کے سر کا بوسہ لیا اورعرض کیا کہ: ’’میری بھی یہی رائے تھی جو اپنی رائے آپ نے ظاہر فرمائی‘ مجھ کو دنیا کی خواہش اور حکومت کی تمنا بالکل نہ تھی‘ میں نے اس کام کو صرف اس لیے اختیار کیا تھا‘ کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی پابندی نہیں کی جاتی تھی اور ممنوعات سے لوگ بچتے نہ تھے‘ جب تک میرے دم میں دم ہے میں حق کے لیے لڑتا رہوں گا‘ میں نے آپ سے مشورہ لینا ضروری سمجھا اور آپ کی باتوں نے میری وصیت کو بہت کچھ بڑھا دیا‘ اور اماں جان میں آج ضرور مارا جائوں گا‘ تم زیادہ مغموم نہ ہونا‘ تم مجھ کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دو‘ میں نے کبھی ناجائز کام کا قصد نہیں کیا‘ اور نہ کسی سے بد عہدی کی‘ نہ کسی پر ظلم کیا‘ نہ ظالم کا معاون بنا‘ حتی الامکان اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف کوئی کام نہیں کیا‘ الٰہی میں نے یہ باتیں فخر کی راہ سے نہیں کہیں‘ بلکہ صرف اس لیے کہ میری ماں کو تسکین خاطر حاصل ہو‘‘۔ سیدنا اسماء رضی اللہ عنھا بولیں: ’’مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ تم کو اس کا اجر عطا فرمائے گا‘ تم اللہ تعالیٰ کا نام لے کر دشمنوں پر حملہ کرو‘‘۔ بیٹے کو رخصت کرتے وقت سیدنا اسماء رضی اللہ عنھا نے گلے سے لگایا‘ تو ہاتھ زرہ