تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حجاج کی وفات کے بعد بھی وہ اسی طرح فتوحات و ملک داری میں مصروف رہا جیسا کہ حجاج کی زندگی میں تھا‘ اس کے پاس جس قدر فوج تھی‘ وہ سب کی سب دل و جان سے اس پر فدا اور اس کے ہر ایک حکم کی تعمیل کو بسر و چشم موجود تھی‘ اور یہ بھی سب سے بڑی دلیل اس بات کی تھی کہ محمد بن قاسم نہایت اعلیٰ درجہ کی قابلیت سپہ سالاری رکھتا تھا۔ ایسے نوجوان کی جس کی ابتداء ایسی عظیم الشان تھی‘ اگر تربیت کی جاتی اور اس سے کام لیا جاتا‘ تو وہ سلیمان ابن عبدالملک کے لیے تمام بر اعظم ایشیا کو چین و جاپان تک فتح کر دیتا‘ لیکن سلیمان بن عبدالملک نے جذبہ عداوت سے مغلوب ہو کر یزید بن ابی کبشہ کو سندھ کا والی بنا کر بھیجا اور حکم دیا کہ محمد بن قاسم کو گرفتار کر کے بھیج دو‘ سلیمان کا یہ حکم درحقیقت تمام کارگذار و فتح مند سپہ سالاروں کو بد دل بنا دینے کا ایک زبردست اعلان تھا‘ کسی خلیفہ یا سلطان کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی قابل شرم بات نہیں ہو سکتی کہ وہ اپنے سرداروں کے عظیم الشان اور قابل تعریف کاموں کا صلہ بجائے تحسین و آفرین اور عزت افزائی کے قید و گرفتاری سے دے۔ یزید بن ابی کبشہ سندھ میں آکر زور و قوت کے ذریعہ محمد بن قاسم کو ہر گز ہر گز مغلوب نہیں کرسکتا تھا۔ محمد بن قاسم رحمہ اللہ تعالی کے ہمراہیوں کو جب خلیفہ کے اس نامعقول حکم کا حال معلوم ہوا تو انہوں نے محمد بن قاسم سے کہا کہ تم اس حکم کی ہر گز تعمیل نہ کرو‘ ہم تم کو اپنا امیر جانتے اورتمہارے ہاتھ پر اطاعت کی بیعت کئے ہوئے ہیں‘ خلیفہ سلیمان کا ہاتھ ہر گز آپ تک نہیں پہنچ سکتا‘ حقیقت بھی یہ ہے کہ محمد بن قاسم رحمہ اللہ تعالی کو مغلوب کرنے کے لیے خلیفہ سلیمان کو اپنی خلافت کا پورا زور لگانا پڑتا‘ کیوں کہ یہاں محمد بن قاسم رحمہ اللہ تعالی کے پاس اس کی ہر دل عزیزی کے سبب ایسے ذرائع موجود تھے کہ سندھ کے ریگستان کا ہر ایک ذرہ اس کی اعانت و امداد کے لیے کوشاں ہوتا‘ مگر اس جوان صالح نے فوراً بلا توقف اپنے آپ کو ابن ابی کبشہ کے سپرد کر دیا اور کہا کہ خلیفہ وقت کے حکم کی نافرمانی کا جرم مجھ سے ہرگز سرزد نہ ہو گا۔۱؎ چنانچہ محمد بن قاسم رحمہ اللہ تعالی کو گرفتار کرنے کے بعد ابن ابی کبشہ نے دمشق کی جانب روانہ کر دیا‘ وہاں سلیمان کے حکم سے وہ واسط کے جیل خانہ میں قید کر دیا گیا اور صالح بن عبدالرحمان کو اس پر مسلط کر دیا۔ جس نے اس کو جیل خانے میں انواع و اقسام کی تکلیفیں دے دے کر مار ہی ڈالا۔۲؎ موسیٰ بن نصیر کا انجام موسیٰ بن نصیر کی نسبت اوپر ذکر ہو چکا ہے کہ اس نے تمام شمالی افریقہ میں امن و امان قائم رکھا اور اندلس کی فتح کو تکمیل تک پہنچایا‘ موسیٰ کا باپ نصیر عبدالعزیز بن مروان بن حکم کا مولیٰ یعنی آزاد کردہ غلام تھا‘ جو خاندان مروان کا ایک فرد سمجھا جاتا تھا‘ اس بہادر سردار کے حوصلے کا اندازہ اس طرح ہو سکتا ہے کہ وہ تمام بر اعظم یورپ کو صرف پندرہ بیس ہزار فوج سے فتح کر لینے کا ارادہ رکھتا تھا‘ موسیٰ بن نصیر جب دارالخلافہ میں پہنچا‘ تو اس کا قدرشناس خلیفہ ولید فوت ہو چکا تھا‘ سلیمان نے موسیٰ کے ساتھ بجائے اس کے کہ عزت و قدردانی کا برتائو کرتا‘ اس کو قید کر دیا اور اس قدر بھاری تاوان اس کے ذمہ عائد کیا‘ جو موسیٰ کی استطاعت سے باہر تھا‘ یہاں تک کہ موسیٰ کو تاوان کا روپیہ پورا کرنے کے لیے عرب سرداروں سے مانگ کر اپنی آبروبرباد کرنی پڑی اور اس کی تمام ناموری اور عزت و حرمت خاک میں مل گئی۔