تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
لے کر آیا اور وہ بھی سب جیل خانے میں ڈال دیئے گئے۔ بغاکبیر نے عرب میں دو برس تک ترکوں کے ہاتھ عربوں کو بے دریغ قتل کرایا اور طرح طرح سے ان کو ذلیل و مغلوب کیا۔ ۲۳۰ھ میں عبداللہ بن طاہر حاکم خراسان نے وفات پائی‘ خلیفہ واثق باللہ نے اس کے بیٹے طاہر بن عبداللہ کو خراسان‘ کرمان‘ طبرستان اور رے کی حکومت پر عبداللہ بن طاہر کی وصیت کے موافق بحال رکھا۔ احمد بن نصر کا خروج و قتل احمد بن نصر بن مالک بن ہثیم خزاعی کا دادا مالک بن ہثیم خزاعی دعوت عباسیہ کے نقیبوں میں سے تھا۔ احمد بن نصر اصحاب حدیث کی صحبتوں میں اکثر رہتا تھا۔ اور اسی لیے اس کا شمار محدثین میں تھا۔ وہ مسلئہ خلق قرآن کا مخالف تھا۔ اسی وجہ سے ایک گروہ کثیر نے خلافت عباسیہ کے اس کے ہاتھ پر بیعت کی اور شہر بغداد میں شب پنج شنبہ ۳ شعبان ۲۳۱ھ کو احمد بن نصر نے خروج کیا اور علم بغاوت بلند کر کے نقارہ بجا دیا۔ بغداد کی پولس کے افسر نے نہایت ہوشیاری اور مستعدی سے کام لے کر احمد بن نصر کو گرفتار کر لیا۔ احمد بن نصر اور اس کے ہمراہی جو گرفتار ہوئے تھے واثق باللہ کے پاس مقام سامرا میں بھیجے گئے۔ واثق نے نصر کو اپنے ہاتھ سے قتل کیا اور اس کا سر اور جسم جدا کر کے بغداد بھیجے گئے۔ جسم کو بغداد کے دروازہ پر لٹکایا گیا۔ اور سر کو جسر بغداد پر لٹکا کر ایک چوکیدار کو متعین کیا گیا کہ وہ نیزہ کی نوک سے منہ کو قبلہ کی طرف نہ ہونے دے‘ اور کان میں ایک پرچہ دھاگے سے باندھ کر لٹکا دیا گیا۔ جس پر لکھا تھا کہ یہ ’’سر احمد بن نصر بن مالک کا ہے جس کو خلیفہ نے عقیدہ خلق قرآن کی طرف بلایا مگر اس نے انکار کیا۔ لہٰذا خدائے تعالیٰ نے بہت جلد اس کو آتش دوزخ کی طرف بلا لیا‘‘۔ احمد بن نصر کے قتل کا واقعہ ابو عبدالرحمن عبداللہ بن محمد ازوی کے واقعہ سے (جس کا اوپر ذکر آ چکا) پہلے کا ہے۔ اسیران جنگ کا تبادلہ رومیوں سے رومیوں کے ساتھ جنگ کا سلسلہ ہمیشہ سے جاری چلا آتا تھا۔ مسلمانوں نے ہمیشہ رومیوں کوشکست دی اور کبھی کبھی قسطنطنیہ تک بھی پہنچ گئے۔ مگر رومیوں کی حکومت و سلطنت کا مکمل استیصال نہیں ہو سکا۔ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ خلافت راشدہ کے عہد میں ایرانی شہنشاہی برباد ہو چکی تھی مگر رومی شہنشاہی ابھی باقی رہ گئی تھی‘ اگرچہ شام و فلسطین و مصر وغیرہ رومیوں سے چھین لیے گئے تھے اور مسلمانوں کے قسطنطنیہ پر قابض ہو کر یورپ کے اندر داخل ہونے میں کوئی کسر باقی نہ تھی کہ اسی حالت میں اندرونی فسادات کھڑے ہو گئے اور قسطنطنیہ و یورپ مسلمانوں کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے پامال ہوتے ہوتے بچ گیا۔ ان اندرونی جھگڑوں کا سلسلہ ایسا شروع ہوا کہ کبھی بند ہی ہونے میں نہ آیا اور کس خلیفہ کو بھی ایسا موقعہ اور کامل اطمینان میسر نہ ہوا کہ وہ اپنی تمام طاقت وسیع مدت کے لیے یورپ کی طرف متوجہ کر دے اور اپنے مقبوضہ ممالک میں بغاوت کا اندیشہ اور خروج کا خطرہ نہ ہو۔ غرض مسلمانوں کی آپس کی مخالفتوں نے قسطنطنیہ کے قیصر اور یورپ کے ملکوں کی حفاظت کی اور سرحدات پر عیسائیوں اور مسلمانوں کی لڑائیوں کا سلسلہ جاری رہا۔ کبھی کوئی خلیفہ فوج لے کر رومیوں پر حملہ آور ہوا تو ان کو ڈرا دھمکا کر اور سزا دے