تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
۳۲۲ھ میں تخت خلافت پر بیٹھا‘ یہ جیل خانہ سے لا کر تخت پر بٹھایا گیا تھا‘ اس نے علی بن مقلہ کو وزیراعظم بنایا‘ محمد بن یاقوت کو گرفتار کر کے قید کر دیا‘ یاقوت ان دنوں واسط میں تھا‘ وہ فوج آراستہ کر کے علی بن بویہ کے مقابلہ پر گیا مگر شکست کھائی۔ اسی سال عبیداللہ مہدی مجوسی والی افریقہ پچیس سال سلطنت کرنے کے بعد فوت ہوا اور اس کی جگہ اس کا بیٹا ابو القاسم بامر اللہ کے لقب سے تخت نشین ہوا۔ قتل مردادیح جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے مردادیح نے تمام صوبہ رے‘ اصفہان اور اہواز وغیرہ پر قابض و متصرف ہو کر دربار خلافت سے سند بھی حاصل کر لی تھی‘ مگر چند روز کے بعد اس نے بادشاہی کا دعویٰ کر کے سونے کا ایک تخت بنوایا‘ سپہ سالاروں اور سرداروں کے لیے چاندی کی کرسیاں تیار کرائیں‘ کسریٰ کی طرح تاج مرصع سر پر رکھا اور بادشاہ کے لقب سے اپنے آپ کو ملقب کیا‘ پھر عراق و بغداد پر فوج کشی کی تیاری کی اور کہا کہ میں کسرائے فارس کے محلوں کو ازسر نو تعمیر کرائوں گا اور عربوں کی حکومت نیست و نابود کر کے ازسر نو مجوسیوں کی حکومت قائم کروں گا۔ اس کی اس قسم کی تعلی کی باتیں اس کے بعض سرداروں کو ناگوار گذریں اور لوگوں نے ۳۲۳ھ میں اس کو اصفہان کے باہر قتل کر ڈالا۔ صوبہ جات کی حالت خلیفہ راضی باللہ کی حکومت بغداد اور اس کے مضافات کے سوا اور کہیں نہ تھی‘ نہ کسی صوبہ سے خراج آتا تھا‘ ہر جگہ خود مختار حکومتیں لوگوں نے قائم کر لی تھیں‘ جن لوگوں نے خراج مقررہ بھیجنے کے وعدے پر سندیں حاصل کی تھیں انہوں نے بھی اپنے وعدوں کا پورا کرنا غیر ضروری سمجھ رکھا تھا۔ بصرہ پر محمد بن رایق کا قبضہ تھا۔ خوزستان اور اہواز پر ابو عبداللہ بریدی کا قبضہ تھا‘ فارس کی حکومت علی بن بویہ ملقب بہ عمادالدولہ کے قبضے میں تھی۔ کرمان میں ابو علی محمد بن الیاس حکمران تھا۔ رے‘ اصفہان اور جبل کے صوبوں میں حسن بن بویہ ملقب بہ رکن الدولہ اور وثمگیر برادر مردادیح ایک دوسرے کے مقابل مصروف پیکار تھے۔ موصل‘ دیار بکر‘ دیار مصر‘ دیار ربیعہ بنی حمدان کے قبضے میں تھے۔ مصر و شام پر محمد بن طفج قابض و متصرف تھا‘ ماوراء النہر اور خراسان کے بعض حصے پر بنی سامان حکمران تھے‘ بحرین اور یمامہ کے صوبوں پر ابو طاہر قرمطی کی حکومت قائم تھی‘ طبرستان کے صوبہ پر دیلمی سردار قابض و حکمران تھے‘ اندلس و مراقش و افریقہ میں تو عرصہ سے خود مختار سلطنتیں قائم ہی تھیں۔ راضی باللہ کی تخت نشینی کے پہلے ہی سال میں عماد الدولہ علی بن بویہ نے درخواست بھیجی کہ صوبہ فارس کی سند حکومت مجھ کو عطا فرمائی جائے‘ میں ایک کروڑ اسی لاکھ درہم سالانہ خراج اس صوبہ سے دربار خلافت میں بھیجا کروں گا۔ خلیفہ نے سند اور خلعت معہ پرچم روانہ کر کے عمادالدولہ کا خطاب دیا اور اس کے بھائی حسن کو رکن الدولہ اور احمد کو معزالدولہ کا خطاب مرحمت ہوا‘ مردادیح کے مقتول ہونے کے بعد اس کی فوج کے دو حصے ہو گئے‘ ایک حصہ تو عماد الدولہ کے پاس فارس میں چلا آیا۔ اور ایک حصہ اس کے ایک سردار یحکم نامی کے زیر فرمان رہا۔ یحکم نے دربار خلافت میں پہنچ کر رسوخ حاصل کیا اور جوڑ توڑ ملا کر ان سب سرداروں پر جو دربار خلافت پر قابو یافتہ تھے غالب آیا‘ امیر الامراء کا خطاب حاصل کر