تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تم نے حسین بن علی رضی اللہ عنھما کو کیوں قتل کیا‘ شمر ذی الجوشن اور اس کے ہمراہی اس توقع میں تھے کہ یزید ہم کو انعام دے گا اور ہماری عزت بڑھائے گا مگر یزید نے کسی کو کوئی انعام و صلہ نہیں دیا اور اپنی ناخوشی و ناراضی کا اظہار کر کے سب کو واپس لوٹا دیا۔ پھر درباریوں سے مخاطب ہو کر کہنے لگا کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی ماں میری ماں سے اچھی تھیں ان کے نانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تمام رسولوں سے بہتر اور اولاد آدم کے سردار ہیں‘ لیکن ان کے باپ علی رضی اللہ عنہ اورمیرے باپ معاویہ رضی اللہ عنہ میں جھگڑا ہوا‘ اسی طرح میرے اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے درمیان نزاع ہوا‘ علی رضی اللہ عنہ اور حسین رضی اللہ عنہ دونوں کہتے تھے کہ جس کے باپ دادا اچھے ہوں وہ خلیفہ ہو‘ اور قرآن شریف کی اس آیت پر انہوں نے غور نہیں فرمایا کہ { قل اللھم ملک الملک توتی الملک من تشاء وتنزع الملک ممن تشآء} آخر سب کو معلوم ہو گیا کہ خدائے تعالیٰ نے ہمارے حق میں فیصلہ کیا‘ یا ان کے حق میں۔ اس کے بعد ان قیدیوں کو آزادی دے کر بطور معزز مہمان اپنے محل میں رکھا‘ عورتیں اندر عورتوں میں گئیں‘ تو انہوں نے دیکھا کہ یزید کے محل سرا میں بھی اسی طرح ماتم برپا ہے اور سب عورتیں رو رہی ہیں‘ جس طرح سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی بہن اپنے بھائی اور عزیزوں کے لیے رو رہی تھیں‘۱؎ چند روز شاہی مہمان رہ کر یہ برباد شدہ قافلہ مدینہ کی طرف روانہ ہوا۔ یزید نے ان کو ہر قسم کی مالی امداد دی‘ اور علی بن حسین رضی اللہ عنہ سے ہر قسم کی امداد کا وعدہ کیا‘ کہ جب تم لکھو گے تمہاری فرمائش کی ضرور تعمیل کی جائے گی۔ عبیداللہ بن زیاد کی مایوسی عبیداللہ بن زیاد کو توقع تھی کہ قتل حسین رضی اللہ عنہ کے بعد میری خوب قدر دانی ہو گی۔ لیکن یزید نے واقعہ کربلا کے بعد سلم بن زیاد کو خراسان کا حاکم مقرر کر کے ایران کے بعض وہ صوبے بھی جو بصرہ سے تعلق رکھتے تھے مسلم کے ماتحت کر کے اس کو کوفہ کی جانب روانہ کیا‘ اور ایک خط عبیداللہ بن زیاد کے نام لکھ کر دیا کہ تمہارے پاس عراق کی جس قدر فوج ہے اس میں سے چھ ہزار آدمی جس کو سلم پسند کرے اس کے ساتھ کر دو‘ عبیداللہ کو یہ بات ناگوار گذری اور امام حسین رضی اللہ عنہ کے قتل پر افسوس کرنے لگا کہ اگر وہ زندہ ہوتے تو یزید کو میری احتیاج رہتی اور وہ میری عزت و مرتبہ بڑھانے میں کمی نہ کرتا‘ لیکن اب وہ بے فکر ہو گیا ہے‘ اسی لیے اس نے ملک اور فوج دونوں میرے تصرف سے نکالنی شروع کر دیں۔ سلم نے جب لشکر کوفہ کی موجودات لے کر سرداران لشکر سے کہا کہ تم میں سے کون کون میرے ہمراہ خراسان کی طرف چلنا چاہتا ہے‘ تو ہر ایک شخص نے جانے کی خواہش ظاہر کی‘ عبیداللہ بن زیاد نے ۱؎ یہ واقعہ حقیقت کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ اور خلیفہ یزید کے درمیان غلط فہمیاں سبائی اور منافقین سازشیوں نے پیدا کیں اور یہ کہ خلیفہ یزید کا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا حال سن کر افسوس کرنا اور متعلقہ عمال پر اظہار ناراضگی کرنا بھی حقیقت کشائی کرتا ہے۔ رات کے وقت سرداران لشکر کے پاس آدمی بھیجا اور کہا کہ تعجب ہے کہ تم سلم کو میرے اوپر ترجیح دیتے ہو‘ سرداران لشکر نے جواباً کہلا بھیجوایا کہ آپ کے پاس رہ کر تو اہل بیت نبوی کے خون سے اپنے ہاتھ رنگنے پڑتے ہیں لیکن سلم کے ساتھ جا کر ہم کو