تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
رہنے کا بندوبست کر کے بابک کی فوج کو ہٹاتے اور قلعہ بذ کی طرف پسپا کرتے ہوئے آگے بڑھے۔ شب خون اور کمین گاہوں کا بڑا اندیشہ تھا‘ اس کا بھی افشین نے کافی خیال رکھا۔ آب و ہوا اور موسم سرما کی شدت نے عربی و عراقی لوگوں کو زیادہ اور خراسانیوں اور ترکوں کو کسی قدر کم ستایا۔ جعفر بن دینار خیاط رضاکاروں اور مجاہدوں کا سپہ سالار تھا‘ اس نے اور بغا و اتیخ نے خوب خوب داد جواں مردی دی‘ بابک اور اس کے سپہ سالاروں اذین و طرہ خان وغیرہ نے بھی قابلیت جنگ جوئی خوب دکھائی۔ ابو سعید جو افشین کے پہنچنے سے پہلے ہی وہاں بابک کی فوجوں سے برسر مقابلہ تھا معہ اپنے ہمراہیوں کے افشین کی ماتحتی میں کام کرنے لگا تھا۔ اس طویل سلسلہ جنگ کا نتیجہ یہ ہوا کہ بابک خرمی مغلوب و مجبور ہو کر گرفتار ہوا اور خلیفہ معتصم کی خدمت میں سامرہ کی طرف روانہ کیا گیا۔ بابک اور اس کے بھائی معاویہ کی گرفتاری ماہ شوال ۲۲۳ھ کو عمل میں آئی اور افشین ماہ صفر ۲۲۳ھ میں سامرہ واپس پہنچا۔ خلیفہ معتصم نے فتح اور بابک کی گرفتاری کا حال سن کر حکم جاری کر دیا کہ ہر منزل پر مقام برزند (آذربائیجان) سے سامرہ تک افشین کے لیے خلیفہ کی طرف سے ایک خلعت اور ایک گھوڑا معہ سازو براق پیش کیا جائے اور اس کا استقبال شاہانہ شان و شوکت کے ساتھ ہو۔ جب افشین دارالخلافہ سامرہ کے قریب پہنچا تو معتصم نے اپنے بیٹے واثق کو شہر سے باہر استقبال کے لیے بھیجا۔ جب خلیفہ کے سامنے دربار میں حاضر ہوا تو کرسی زر پر بٹھا کر اس کے سر پر تاج رکھا گیا۔ نہایت قیمتی خلعت اور بیس لاکھ درہم بطور انعام اس کو دئیے گئے۔ دس لاکھ درہم اس کے علاوہ اس کی فوج میں تقسیم کرنے کے لیے عطا ہوئے۔ بابک کو خلیفہ معتصم کے حکم سے سامرہ میں قتل کیا گیا۔ اور اس کے بھائی کو بغداد میں بھیج دیا گیا جہاں وہ وہاں قتل ہوا۔ دونوں کی لاشوں کو صلیب پر لٹکایا گیا۔ بابک کا دور دورہ قریباً بیس سال تک رہا‘ اس عرصہ میں اس نے ایک لاکھ پچپن ہزار آدمیوں کو قتل کیا۔ سات ہزار چھ سو مسلمان عورت و مرد اس کی قید سے چھڑائے گئے‘ بابک کے اہل و عیال سے سترہ مرد اور تیس عورتیں افشین نے گرفتار کیں۔ فتح عموریہ اور جنگ روم بابک خرمی جب اسلامی لشکر کے محاصرہ میں آ کر بہت تنگ اور مجبور ہوا تو اس نے ایک خط نوفل بن میکائیل قیصر روم کے نام روانہ کیا۔ اس میں لکھا کہ معتصم نے اپنی تمام و کمال فوجیں میرے مقابلہ پر روانہ کر دی ہیں۔ بغداد و سامرہ اور تمام صوبے اس وقت فوجوں سے خالی ہیں اور تمام سرداران لشکر میرے مقابلہ میں مصروف پیکار ہیں۔ آپ کو اس سے بہتر کوئی دوسرا موقعہ نہیں مل سکتا۔ آپ اس موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیں اور اسلامی علاقہ کو فتح کرتے ہوئے بغداد تک چلے جائیں۔ ’’بابک کا‘‘ مدعایہ تھا کہ اگر قیصر روم نے حملہ کر دیا تو اسلامی فوج کے دو طرف تقسیم ہونے سے میرے اوپر کا دبائو کم ہو جائے گا۔ قیصر اس خط کو پڑھ کر ایک لاکھ فوج کے ساتھ حملہ آور ہوا۔ مگر اس وقت بابک کی جنگ کا خاتمہ ہو چکا تھا۔ اور اسلامی لشکر پوری طاقت سے اس کے سد راہ ہو سکتا تھا۔ چنانچہ نوفل نے سب سے پہلے زبطرہ پر شب خون مارا اور وہاں کے مردوں کو جو مقابلے پر آئے قتل کر ڈالا اور عورتوں بچوں کو گرفتار کر کے لے گیا۔ اس کے بعد ملطیہ کی طرف متوجہ ہوا اور وہاں بھی یہی طرز عمل اختیار