تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تھا‘ اور وہیں ایسے لوگ موجود تھے جو جرأت کے ساتھ اظہار مخالفت کر سکتے تھے‘ انہوں نے ۵۱ ہجری کے آخر ایام میں حج بیت اللہ کا ارادہ کیا‘ مصلحت اس میں یہ بھی تھی کہ وہ اہل حجاز کو اپنا ہم خیال بنانے میں کامیاب ہوں‘ چنانچہ اول مدینہ منورہ پہنچے‘ ان کی آمد کی خبر سن کر عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ‘عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ‘ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ مدینہ سے مکہ کو چلے گئے‘ انہوں نے مدینہ پہنچ کر لوگوں کو خوب انعام و ۱؎ معاویہ رضی اللہ عنہ اس طرح خلافت کی بقا و استحکام چاہتے تھے نہ کہ اپنی بادشاہت و اقربا نوازی۔ ان پر بادشاہت یا اقربا نوازی کا الزام ہرگز نہیں لگایا جا سکتا۔ ایسے کسی الزام میں کوئی حقیقت نہیں ہو سکتی۔ ہمیں تو احادیث میں صحابہ رضی اللہ عنھم پر لعن طعن کرنے سے سختی سے منع کیا گیا ہے۔ قرائن سے پتہ چلتا ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ خلافت کو فتنوں وغیرہ سے بچانا چاہتے تھے کیونکہ وہ قبل ازیں خوارج وغیرہ کے فتنے دیکھ چکے تھے‘ واللہ اعلم سبحانہ‘ و تعالیٰ! اکرام دیئے‘ اور ان کے دلوں پر قبضہ پا کر اپنا ہم خیال بنایا اور مروان بن حکم کو سمجھایا کہ مدینہ والوں کے روزینے بڑھا دو‘ ان کو قرض کی ضرورت ہو تو بلا دریغ بیت المال سے قرض دو اور قرض کی وصولی کا تقاضا نہ کرو‘ جس سے مخالفت کا زیادہ اندیشہ ہو اس کو زیادہ عطا کرو اس طرح ان کو زیر بارا احسان بنائو۔ ابن عمر کا جواب اس کے بعد مکہ کی طرف روانہ ہوئے وہاں مذکورہ بالا چاروں حضرات کو اپنے پاس بلایا اور یزید کی بیعت کے معاملہ میں گفتگو کی‘ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں صرف اس قدر اقرار کر سکتا ہوں کہ تمہارے بعد جس شخص کی خلافت پر لوگ متفق ہو جائیں گے میں اس کو خلیفہ تسلیم کر لوں گا‘ اگر ایک حبشی غلام کو بھی لوگ خلیفہ بنا لیں گے تو میں اس کی اطاعت کروں گا اور جماعت کا ساتھ نہ چھوڑوں گا۔۱؎ ابن زبیر کی مدلل مخالفت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم آپ کے سامنے چند باتیں پیش کرتے ہیں آپ ان میں سے جس کو چاہیں اختیار فرما لیں۔ اول یہ کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت پر عمل کریں اور خلافت کے معاملہ کو ویسے ہی بلانامزدگی مسلمانوں کے انتخاب پر چھوڑ جائیں‘ کہ وہ جس کو چاہیں خلیفہ بنا لیں‘ اور اگر آپ کو یہ بات پسند نہیں ہے‘ تو سنت صدیقی پر عمل کریں کہ ایسے شخص کو اپنا قائم مقام مقرر فرما جائیں جو نہ آپ کی قوم کا ہو نہ خاندان کا۔ یہ بھی پسند نہ ہو تو پھر آپ سنت فاروقی پر عامل ہوں کہ ایسے چھ اشخاص کو نامزد کر جائیں جو نہ آپ کے خاندان و قبیلے کے ہوں‘ نہ ان میں آپ کا بیٹا شامل ہو‘ وہ چھ شخص اپنے آپ میں سے جس کو چاہیں خلیفہ منتخب کر لیں۔ ان تینوں صورتوں کے سوا اور کوئی چوتھی صورت نہیں جس پر ہم رضا مند ہو سکیں۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی تائید باقی صاحبوں نے بھی کی‘ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے حج سے فارغ ہو کر مذکورہ حضرات کے سوا باقی تمام اہل مکہ سے یزید کی ولی عہدی کے متعلق بیعت لی اور لوگوں کو اپنی جود و عطا سے مالا مال کیا‘ اس میں شک نہیں کہ لوگوں کو یزید کے معاملہ میں اپنا ہم خیال و ہم نوا بنانے کے لیے سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے مال و دولت سے زیادہ کام لیا‘ اور ممکن ہے کہ وہ