تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مصر کی حکومت پر مامور رکھا۔ اس طرح احمد بن طولون حکومت مصر پر خوب مضبوطی سے قائم ہو گیا اور پھر اس کی اولاد وراثتاً مصر پر قائم رہی اور اپنا سکہ مصر میں چلایا‘ غرض ۲۵۳ھ سے مصر کو بھی خلافت عباسیہ سے خارج ہی سمجھنا چاہے‘ یا کم از کم یہ سمجھنا چاہے کہ ۲۵۳ھ سے مصر میں حکومت طولونیہ کی ابتدا ہوئی۔ یعقوب بن لیث صفار یعقوب بن لیث اور اس کا بھائی عمرو بن لیث دونوں سجستان میں تانبے اور پیتل کے برتنوں کی دوکانیں کرتے تھے‘ چونکہ اس زمانہ میں خلافت کے کمزور ہو جانے کی وجہ سے جابجا بغاوتیں اور سرکشیاں نمودار ہو رہی تھیں‘ اس لیے خوارج نے بھی خروج شروع کیا‘ ان کے مقابلہ میں اہل بیت یعنی علویوں کے طرف دار بھی نکل کھڑے ہوئے‘ انہیں میں ایک شخص صالح بن نظر کنعانی بھی ہوا جو خواہی اہل بیت کا دعویٰ کر کے خروج پر آمادہ ہوا‘ اس کے گرد امراء ورئوسا وغیرہ عوام الناس کا یک گروہ جمع ہو گیا‘ یعقوب بن لیث بھی اسی گروہ میں شامل ہو گیا۔ صالح نے لڑ بھڑ کر سجستان پر قبضہ کر لیا اور خاندان طاہریہ کے ارکان کو وہاں سے نکال دیا‘ اس کامیابی کے بعد ہی صالح کا انتقال ہو گیا‘ اس کے بعد درہم بن حسن ایک شخص صالح کا جانشین و قائم مقام ہوا‘ مگر گورنر خراسان نے اس کو کسی حیلہ سے گرفتار کر کے بغداد بھیج دیا‘ صالح کی جماعت نے یعقوب بن لیث کو اپنا امیر بنا لیا‘ یعقوب نے نہایت ہوشیاری اور شجاعت سے کام لے کر سجستان پر اپنا قبضہ مکمل کیا اور محمد بن عبداللہ بن طاہر کے عامل محمد بن اوس ابناری کو جوہرات کی حکومت پر متعین تھا‘ نکال دیا اور ہرات پر قبضہ کر کے خراسان کے علاقوں پر قبضہ کرنا شروع کیا۔ اسی اثناء میں فارس کے گورنر علی بن حسین بن شبل نے کرمان پر قبضہ کرنا چاہا‘ ادھر سے یعقوب بن لیث نے بھی کرماں کو اپنے تصرف میں لانا چاہا‘ علی بن حسین کے سپہ سالاروں کو یعقوب بن لیث نے شکست دے کر بھگا دیا‘ اور آخر فارس کے دارالسلطنت شیراز پر حملہ آور ہو کر ۲۵۵ھ میں شیراز پر بھی قبضہ کر لیا‘ اس کے بعد فوراً سجستان کی طرف واپس چلا گیا اور دربار خلافت میں ایک درخواست اس مضمون کی بھیج دی کہ اس علاقہ میں بڑی بد امنی پھیل رہی تھی‘ یہاں کے لوگوں نے مجھ کو اپنا امیر بنا لیا ہے‘ میں امیر المومنین کا فرمانبردار ہوں۔ اس کے بعد خاندان طاہریہ سے یعقوب لیث نے بتدریج تمام خراسان کو خالی کرا لیا اور قابض و متصرف ہو کر اپنی مستقل حکومت قائم کی۔ طاہر بن حسین کی اولاد نے خراسان پر اب تک مسلسل حکومت کی تھی‘ اس لیے خراسان کے مستقل اسلامی سلطنتوں کے سلسلہ میں سب سے پہلے خاندان طاہریہ کا نام لیا جاتا ہے‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ خاندان طاہریہ کا تعلق برابر دربار خلافت سے رہا اور اس خاندان کا کوئی نہ کوئی شخص بغداد کا افسر پولیس بھی ضرور رہا۔ خلفاء عباسیہ میں سے کسی کو یہ جرأت نہ ہوئی کہ خاندان طاہریہ کی حکومت سے خراسان کو نکال لے‘ مگر طاہریہ خاندان ہمیشہ اپنے آپ کو خلفاء عباسیہ کا نوکر اور محکوم سمجھتا‘ اور خلفاء عباسیہ سے سند گورنری حاصل کرتا اور خراج مقررہ بھی برابر بھیجتا رہا‘ لیکن یعقوب بن لیث نے جو حکومت قائم کی یہ اپنی نوعیت میں طاہریہ سلطنت سے جداگانہ اور خود مختارانہ تھی‘ جو دولت صفاریہ کے نام سے مشہور ہے‘ اس کے تفصیلی حالات آئندہ اپنے