تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
وہاں کے راجائوں نے آپ کے ہی عہد میں بطیب خاطر اسلام قبول کیا اور سندھ میں اسلام کی خوب اشاعت ہوئی‘ اندلس کی طرف ضرورت پیش آئی‘ تو آپ نے اس طرف فوج معہ ساز و سامان روانہ کی‘ اس طرح رومیوں کے مقابلے میں بھی فتوحات حاصل ہوئیں۔ بنو امیہ کی ناراضی کا سبب بنو امیہ نے اپنی خلافت و حکومت کے زمانے میں اچھی اچھی جاگیروں پر اپنے استحقاق سے زیادہ قبضہ کر لیا تھا‘ جس میں دوسرے مسلمانوں کی حق تلفی ہوئی تھی‘ مگر چوں کہ بنو امیہ حکمران تھے‘ اس لیے کوئی چوں و چرا نہیں کر سکتا تھا‘ سیدنا عمر بن عبدالعزیز خلیفہ ہوئے‘ تو انہوں نے سب سے پہلے اپنی بیوی کے زیورات جن میں وہ بلا استحقاق مال کی آمیزش سمجھتے تھے‘ اپنے گھر سے نکلوا کر بیت المال میں بھجوائے‘ پھر آپ نے بنو امیہ کو جمع کر کے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس باغ فدک تھا‘ جس کی آمدنی سے نبیؐ بنو ہاشم کے بچوں کی خبر گیری کرتے اور ان کی بیوائوں کے نکاح کر دیا کرتے تھے‘ سیدہ فاطمۃ الزہرا نے اس باغ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے مانگا‘ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے دینے سے انکار کر دیا‘ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں وہ باغ اسی حالت میں رہا آخر مروان نے اس پر قبضہ کر لیا‘ مروان سے منتقل ہوتے ہوئے وہ مجھے ورثہ میں پہنچا ہے‘ مگر میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی‘ کہ جس چیز کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی صاحبزادی کو دینے سے انکار کر دیا تھا‘ وہ مجھ پر کس طرح حلال ہو گئی‘ لہٰذا میں تم سب کو گواہ کرتا ہوں‘ کہ میں باغ فدک اسی حالت میں چھوڑے دیتا ہوں‘ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں تھا۔ اس کے بعد آپ نے اپنے تمام رشتہ داروں اور تمام بنو امیہ سے وہ تمام جائدادیں اور اموال و سامان واپس کرائے جو ناجائز طور پر ان کے قبضہ و تصرف میں تھے۔ اوزاعی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ ایک روز آپ کے مکان میں بنو امیہ کے اکثر اشراف و سردار بیٹھے ہوئے تھے‘ آپ نے ان سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ تمہاری یہ خواہش ہے کہ میں تمہیں کسی لشکر کا سردار اور کسی علاقہ کا مالک و حاکم بنادوں‘ یاد رکھو! میں اس بات کا بھی روادار نہیں ہوں‘ کہ میرے مکان کا فرش تمہارے پیروں سے ناپاک ہو‘ تمہاری حالت بہت ہی افسوس ناک ہے‘ میں تم کو اپنے دین اور مسلمانوں کے اغراض کا مالک کسی طرح نہیں بنا سکتا‘ انہوں نے عرض کیا کہ کیا ہم کو بوجہ قرابت کوئی حق اور کوئی فضیلت حاصل نہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اس معاملے میں تمہارے اور ایک ادنیٰ مسلمان کے درمیان میرے نزدیک رتی برابر فرق نہیں ہے۔ خلافت راشدہ کے بعد خلافت بنو امیہ میں شان جمہوریت بالکل جاتی رہی تھی‘ اور حکومت میں وہی شخصی اور مطلق العنان حکومت کا رنگ پیدا ہو گیا تھا جو قیصر و کسریٰ کی حکومتوں میں پایا جاتا تھا‘ سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالی نے اسلامی جمہوری شان کو پھر واپس لانے کی کوشش فرمائی‘ اور صدیق اکبر ضض‘ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا زمانہ پھر لوگوں کی نگاہوں میں گھومنے لگا۔ چوں کہ بنی امیہ کو آپ کی خلافت میں بہت نقصان پہنچا‘ وہ جائدادیں جو غاصبانہ طور پر ان کے قبضے میں تھیں ان سے چھن گئیں‘ اور عزت و عظمت کا بلند مقام جو ان کو دوسرے قبائل کے مقابلے میں اپنی قومی حکومت کے سبب حاصل تھا‘ مساوات سے تبدیل ہونے لگا‘ لہٰذا تمام بنو امیہ ان کی خلافت کو اپنے لیے بے حد مضر اور باعث نقصان