تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
خوف زدہ رکھنے اور مسلمانوں کے نام سے لرزاں وترساں بنانے کے لیے کافی تھے‘ حجاز ویمن وغیرہ میں بھی امن وامان ہوگیا۔ زید بن علی رضی اللہ عنہ حسین بن علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب کے ساتھ کربلا میں اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مکہ میں حکومت بنو امیہ کی طرف سے جو سلوک ہوا اس نے اور اس کے بعد حجاج وغیرہ نے حجاز وعراق میں جس قسم کا طرز عمل اخیتار کیا تھا اس نے حجاز وعراق کے عرب قبائل کو اول خوف زدہ بنا کر خاموش کر دیا تھا‘ اس کے بعد ایصال زر اور مال ودولت کے استعمال نے یہ اثر پیدا کیا کہ لوگوں کے دلوں میں بنو امیہ کی طرف سے حاسدانہ جذبہ پیدا ہو کر اندر ہی اندر بنوامیہ کے ساتھ خلوص وہمدردی دلوں سے دور ہونے لگی‘ ہشام کی حکومت بست سالہ کا زمانہ بظاہر امن وسکون اور اطمینان کا زمانہ تھا‘ اب عراق وحجاز میں حجاج و ابن زیاد وغیرہ جیسے سخت گیر وتشدد پسند حکمران بھی نہ تھے‘ بنو ہاشم کو رہ رہ کر اپنی بربادیوں اور بنو امیہ کی کامیابیوں کا خیال آتا تھا‘ وہ تمام ان لوگوں کو جو براہ راست حکومت وقت سے کوئی غیر معمولی فائدہ نہیں اٹھا رہے تھے اپنا ہمدرد دیکھتے تھے‘ خوف ودہشت کا پتھر بھی چھاتی سے اتر چکا تھا لہٰذا بنو ہاشم نے بنو امیہ کی حکومت مٹانے اور خود حکومت حاصل کرنے کا مصمم ارادہ کیا‘ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے زمانے سے ان کو تجربہ تھا کہ حکومتوں کے مٹانے اور فنا کرنے کے لیے تلوار سے زیادہ تدبیر کارگر ہوتی ہے لہٰذا سازشوں اور خفیہ کارروائیوں کا سلسلہ زور شور سے شروع کیا گیا‘ یہ کام بنو ہاشم کے دو خاندانوں نے ایک ہی وقت میں شروع کیا‘ یعنی علی بن ابی طالب اور عباس بن عبدالمطلب کی اولادوں نے جدا جدا کوششیں شروع کیں عباسیوں کی کوششوں کا بیان آگے آئے گا اس وقت علویوں یعنی فاطمیوں کی ایک کوشش کا تذکرہ مقصود ہے۔ اوپر بیان ہوچکا ہے کہ یوسف بن عمر ثقفی کو ہشام بن عبدالملک نے عراق کا حاکم مقرر کیا تھا‘ اس کے عہد امارت یعنی ۱۲۲ھ میں زید بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنھم نے مخفی طور پر لوگوں سے بیعت لینی شروع کی‘ مذکورہ اسباب کی بنا پر چوں کہ بنو امیہ کی قبولیت اس قدر کمزور ہوچکی تھی‘ کہ اس بیعت میں زید بن علی رضی اللہ عنہ کو بڑی کامیابی ہوئی‘ شہر کوفہ میں زید بن علی بن حسین رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر پندرہ ہزار آدمیوں نے بیعت کی۔ سیدنا امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالی بھی زید بن علی رضی اللہ عنہ کی حامیوں میں تھے‘ جو لوگ گزشتہ زمانے کے حالات پر نظر رکھتے تھے انہوں نے زید بن علی رضی اللہ عنہ کو خروج سے باز رکھنے اور ابھی انتظار کرنے کا مشورہ دیا لیکن زید بن علی رضی اللہ عنہ نے اس مشورے پر عمل نہ کیا‘ انہوں نے کوفہ میں خروج کیا‘ یوسف بن عمر ثقفی نے اس بغاوت کو دبانے کی کوشش کی۔ معرکہ آرائی تک نوبت پہنچی۔ کوفیوں نے جس طرح حسین بن علی رضی اللہ عنہ اور مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہ کو دھوکہ دیا اسی طرح زید بن علی رضی اللہ عنہ کو بھی دھوکہ دیا‘ جب تلوار چلانے اور مردانگی کے جوہر دکھانے کا وقت آیا تو انہوں نے زید بن علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ طالب علمانہ کج بحثی شروع کی‘ ان سے سوال کیا کہ پہلے آپ یہ فرمائیے کہ صدیق اعظم رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو کیسا سمجھتے ہیں؟ انہوں