تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مہلب ۸۰ھ تک خود بصرہ ہی میں مقیم رہا اور اپنی طرف سے اپنے بیٹے حبیب کو خراسان کا امیر بنا کر بھیجا‘ حبیب نے باپ کی ہدایت کے موافق خراسان میں جا کر امیہ بن عبداللہ اور اس کے اہل کاروں سے کسی قسم کا تعرض نہیں کیا‘ نہ ان کی تعظیم و تکریم میں کسی قسم کا فرق آنے دیا‘ مہلب کی بیٹی ہند بنت مہلب سے حجاج نے شادی کی اور اس طرح مہلب کو حجاج کے ساتھ رشتہ داری کا تعلق بھی حاصل ہو گیا۔ ۸۰ ہجری میں مہلب نے خود خراسان میں آکر ملک کا اہتمام و انتظام اپنے ہاتھ میں لیا‘ اور پانچ ہزار کی جمعیت لے کر مارواء النہر کی طرف بڑھ کر مقام کش کا محاصرہ کیا‘ یہاں بادشاہ ختن کے چچا زاد بھائی نے آکر مدد کی درخواست کی‘ مہلب نے اپنے بیٹے یزید کو اس کے ساتھ بھیج دیا‘ یزید نے شاہ ختن کو قتل کیا‘ اور ختن کا ملک اس کے بھتیجے کوسپرد کر کے حسب المنشاء عہد نامہ لکھوا کر واپس آیا۔ انہیں ایام میں مہلب نے اپنے بیٹے حبیب کو چار ہزار فوج دے کر بخارا پر حملہ کرنے کے لیے بھیجا‘ والی بخارا نے چالیس ہزار فوج سے مقابلہ کیا‘ مگر انجام کار حبیب کو فتح اور بخارا والوں کو شکست حاصل ہوئی‘ حبیب بہت سامان غنیمت لے کر مہلب کی خدمت میں واپس آیا‘ کش کا محاصرہ دو برس تک جاری رہا‘ آخر اہل کش نے جزیہ دینامنظورکر لیا اور مہلب بعد صلح قلعہ کش سے واپس ہوا۔ اہل کش اور حریث بن قطنہ کی غداری مہلب جب خراسان کے دارالسلطنت مرو میں آکر وہاں سے ماوراء النہر یعنی شہر کش کی طرف روانہ ہوا‘ تو مرو میں اپنے لیے مغیرہ کواپنی طرف سے امیر مقرر کر گیا تھا‘ ابھی کش کا محاصرہ جاری تھا‘ کہ مہلب کے پاس مغیرہ کے فوت ہونے کی خبر پہنچی‘ مہلب نے اپنے بیٹے یزید کو جو مہلب کے پاس موجود تھا‘ مرو کا حاکم مقرر کر کے تیس آدمیوں کے ساتھ مرو کی طرف روانہ کیا‘ یزید جب بست کے ایک درے میں پہنچا تو وہاں پانچ سو ترکوں سے مڈبھیڑ ہو گئی‘ انہوں نے تمام مال و اسباب طلب کیا جو ان کے ہمراہ تھا‘ یزید نے انکار کیا‘ آخر یزید کے کسی ہمراہی نے کچھ تھوڑا سا مال دے کر ان ترکوں کو رضا مند کر لیا‘ لیکن وہ یہ مال لے کر کچھ دور چلے گئے‘ اور پھر لوٹ کر آئے ‘ کہ ہم تمام مال و اسباب لیے بغیر نہ چھوڑیں گے۔ یزید نے انہیں تیس آدمیوں سے ان کا مقابلہ کیا‘ ان کے سردار کو مار ڈالا اور سب کو بھگا دیا‘ مرو پہنچ کر یزید اپنے بھائی کی جگہ حکومت کرنے لگا۔ اس واقعہ کے چند ہی روز کے بعد مہلب اہل کش سے صلح کر کے لوٹا‘ اس مصالحت میں یہ بات بھی طے ہو گئی تھی‘ کہ اہل کش اپنے بادشاہ کے لڑکوں کو مسلمانوں کے سپرد کر دیں اور یہ لڑکے بطور ضمانت اس وقت تک مسلمانوں کی زیر حراست رہیں‘ جب تک مقررہ رقم جزیہ اہل کش مسلمانوں کی خدمت میں حاضرکریں‘ مہلب اپنی طرف سے حریث بن قطنہ کو وہاں زر فدیہ یا جزیہ وصول کرنے اور لڑکوں کو واپس دینے کی غرض سے چھوڑ آیا تھا‘ مہلب جب کش سے روانہ ہو کر بلخ پہنچا تو اس نے حریث بن قطنہ کو ایک قاصد کے ذریعہ اطلاع دی کہ تم زر فدیہ لے کر لڑکوں کو اس وقت تک نہ چھوڑنا جب تک کہ تم خود سر زمین بلخ میں نہ پہنچ جائو۔ مدعا اس سے مہلب کا یہ تھا کہ جو دقت راستے میں یزید کو پیش آئی تھی وہی مصیبت حریث کو پیش نہ آئے‘ حریث نے فوراً یہ خط اہل کش کو دکھا دیا اور کہا کہ اگر تم فوراً زر جزیہ مجھ کو دے دو‘ تو میں تمہارے لڑکوں کو یہیں تمہارے سپرد کر دوں گا اور