تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ادھر مختار کے مکان پر بھی چار ہزار آدمی اس کے گرد جمع ہو چکے تھے‘ وہاں سرکاری فوج کے دوسرے دستہ سے جنگ چھڑ گئی‘ ادھر سے ابراہیم لڑتا بھڑتا مختار کے مکان کے قریب پہنچا‘ ادھر ہر محلے کی فوجیں آگئیں‘ اورمختار کی قیام گاہ کے سامنے جنگ ہونے لگی‘ ابراہیم نے سرکاری فوج کو شکست دے کر بھگایا‘ ادھر سے عبداللہ بن مطیع اور تازہ دم فوج لے کر آیا‘ کبھی ابراہیم و مختار عبداللہ بن مطیع کو دھکیل کر دارالامارۃ میں داخل کر دیتے‘ کبھی عبداللہ بن مطیع ان کو پیچھے ہٹاتا ہوا کوفے سے باہر نکال دیتا رات بھر یہ لڑائی جاری رہی‘ جوں جوں لڑائی نے طول کھینچا مختار کی جماعت ترقی کرتی رہی‘ یعنی لوگ آ آ کر شامل ہوتے رہے‘ بالآخر عبداللہ بن مطیع کو دارالامارۃ میں محصور ہونا پڑا‘ مختار نے تین دن محاصرہ جاری رکھا‘ چونکہ اندر آدمی زیادہ تھے‘ جگہ تنگ تھی اور کھانے پینے کا سامان بھی نہیں تھا‘ لہٰذا عبداللہ بن مطیع کسی پوشیدہ راستے سے نکل کر ابو موسیٰ اشعری کے مکان میں جا کرچھپ گیا‘ اور باقی لوگوں نے امان طلب کر کے دارالامارۃ کا دروازہ کھول دیا۔ مختار نے دارالامارۃ اور بیت المال پر قبضہ کر کے بہت سا روپیہ اپنے آدمیوں میں تقسیم کیا‘ جامع کوفہ میں اہل کوفہ جمع ہوئے‘ مختار نے خطبہ دیا‘ اور محمد بن حنفیہ کی بیعت و امامت تسلیم کرنے کی ترغیب دی‘ چنانچہ اہل کوفہ نے کتاب و سنت کی پیروی اور اہل بیت کی ہمدردی کا بیعت کے ذریعہ اقرار کیا‘ مختار نے بھی ان کے ساتھ حسن سلوک کا وعدہ کیا‘ اس بیعت عام کے بعد مختار نے سنا‘ کہ عبداللہ بن مطیع ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کے مکان میں روپوش ہے‘ اس نے ایک لاکھ درہم اس کے پاس بھجوائے اور کہلا بھیجا‘ کہ مجھ کو معلوم ہوا ہے کہ تم سامان سفر کے نہ ہونے کی وجہ سے ابوموسیٰ کے مکان میں ٹھہرے ہوئے ہو‘ لہٰذا یہ ایک لاکھ درہم قبول کرو‘ اور تین دن کے اندر اپنا سامان درست کر کے کوفہ سے روانہ ہو جائو۔ عبداللہ بن مطیع شرم کی وجہ سے مکہ معظمہ کی طرف نہیں گیا‘ بلکہ کوفہ سے بصرہ چلا آیا۔ جس زمانہ میں سلیمان بن صرد کے ہمراہی ہزیمت خوردہ کوفہ میں آئے تھے‘ ان ہی میں مثنیٰ بن مخرمہ عبدی نامی ایک شخص بصرہ کا رہنے والاتھا۔ مختار کے خط کو پڑھ کر یہ لوگ جیل خانہ میں اس سے ملنے گئے تھے‘ اوپر اس کا ذکر آچکا ہے‘ اسی وقت مثنیٰ نے مختار کے ہاتھ پر بیعت کر لی تھی‘ اور مختار نے اس کو یہ وصیت کر کے بصرہ کی طرف رخصت کیا تھا کہ تم وہاں جا کر شیعان علی رضی اللہ عنہ سے میری نیابت میں بیعت کر لو‘ اور اپنی جمعیت کو بڑھائو‘ جس وقت میں کوفہ میں خروج کروں گا‘ اسی وقت تم بھی بصرہ میں خروج کرنا‘ چنانچہ مثنیٰ بن مخرمہ نے بصرے میں لوگوں سے خفیہ بیعت لینی شروع کی اور ایک گروہ کو اپنے ساتھ شامل کر لیا۔ مختار نے جب کوفہ میں خروج کا ارادہ کیا تو بصرہ میں مثنیٰ کے پاس بھی اطلاع بھیج دی‘ اس نے بھی وہاں تاریخ مقررہ پر خروج کیا‘ لیکن بصرہ میں اس وقت سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کی طرف سے حرث بن ابی ربیعہ حاکم بصرہ تھا‘ حرث بن ابی ربیعہ نے ان باغیوں کے منصوبوں کو پورا نہ ہونے دیا‘ اور سب کو ایک محلہ میں گھیر کر محصور کر لیا‘ پھر سب کو بصرہ سے نکال دیا‘ یہ لوگ بصرہ سے نکل کر کوفہ میں مختار کے پاس چلے آئے‘ اس طرح بصرہ تو بچ گیا مگر کوفہ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کی حکومت سے نکل گیا۔ کوفہ میں مختار نے اپنا تسلط قائم کر کے شرفاء کوفہ کو اپنا مصاحب بنایا اور دوسرے