تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
لیے روانہ کیا ہو۔ مگر یہ ایسی بے حقیقت اور ناقابل تذکرہ مہم ہو گی کہ اس کا ذکر کرنا کسی نے بھی ضروری نہ سمجھا۔ اگر یہ کہا جائے کہ عامل سندھ کی بھیجی ہوئی اس فوج نے چونکہ باپا سے شکست کھائی۔ لہٰذا مسلمانوں نے اس کا ذکر نہیں کیا‘ مگر ایسا کہنے میں معترض کی پست ہمتی اور بد دیانتی کا پردہ فاش ہو جاتا ہے کیونکہ وہ خود تاریخ نویسی اور واقعہ نگاری میں ایسے دروغ و کذب کو جائز سمجھتا ہے ورنہ مسلمان مئورخوں نے مامون کی فوجوں کے شکست کھانے اس کے سپہ سالاروں کے ناکام رہنے کو کہیں بھی نہیں چھپایا۔ حتیٰ کہ قوم زط کی غارت گری کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے اس طعنہ کو بھی درج کر دیا جو نصر بن شیث نے دیا تھا کہ زط کے چند مینڈکوں پر فتح نہ پا سکا۔ بھلا ان مؤرخین کو اگر وہ مامون کی حمایت و طرف داری میں ایسی ہی مجرمانہ حقیقت پوشی پر اتر آئے تھے تو زط کا تذکرہ بڑی آسانی سے ہضم کر سکتے تھے۔ کیونکہ چند ہی سال کے بعد یہ قوم رومیوں کی بدولت صفحۂ ہستی سے فنا ہو گئی تھی۔ ۱؎ بہرحال باپا کی بہادری کا مبالغہ آمیز تذکرہ کرتے ہوئے یہ سفید جھوٹ جس کی کوئی بھی اصلیت نہیں ہے‘ تراشا گیا ہے۔ یہ اسی قسم کا تمسخر انگیز جھوٹ ہے جیسا کہ بکرماجیت کی نسبت ہندو ۱؎ مامون کے بعد معتصم کے ابتدائی دور میں ایک اسلامی سپہ سالار عجیب ون عنیسہ اس پوری زط قوم کو گرفتار کر کے بغداد میں لے آیا جن کی کل تعداد سترہ ہزار تھی۔ معتصم کے حکم سے ان کو سرحد روم کی طرف چشمہ زریہ کے قریب آباد کر دیا گیا۔ جہاں رومیوں نے شب خون مار کر سب کو قتل کر دیا۔ مؤرخوں نے بلا کسی شرم و لحاظ کے لکھ دیا ہے کہ اس نے ہندوستان سے ملک اٹلی کے شہر روما میں پہنچ کر جولیس سیرز شہنشاہ روم کو شکست دی تھی یہ شاید انھوں نے اپنے زعم میں اسکندر یونانی کے حملۂ ہند کا جواب دے دیا ہے۔ دل خوش کرنے کے لیے اس قسم کی باتیں گائوں کی چوپال میں بیٹھ کر تو شاید تھوڑی دیر کے لیے لطف صحبت کا موجب ہو سکتی ہوں لیکن اس کا نام تاریخ اور واقعہ نگاری ہرگز نہیں ہے۔ اخلاق و عادات خلیفہ مامون الرشید تمام خاندان بنو عباس میں باعتبار‘ حزم و عزم‘ حلم و علم‘ عقل و شجاعت سب سے بڑھ کر تھا۔ وہ خود کہا کرتا تھا کہ امیر معاویہؓ کو عمرو بن العاص کی اور عبدالملک کو حجاج کی ضرورت تھی۔ مگر مجھ کو کسی کی ضرورت نہیں ہے۔ اس پر شیعیت غالب تھی یعنی علویوں کو بہت قابل تکریم اور مستحق خلافت سمجھتا تھا۔ اسی لیے اس نے اپنے بھائی موتمن کو معزول کر کے علی رضا کو ولی عہد بنایا اور اپنی بیٹی کی شادی کی‘ اس کا یہ بھی خیال تھا کہ وہ خود خلع خلافت کر کے علی رضا کو اپنے سامنے خلیفہ بنا دے۔ مگر ابتدائی دس برس گذر جانے کے بعد آخر عہد خلافت میں علویوں کے خروج اور سرکشیوں سے تنگ آ کر اس کے خیالات میں تغیر آ گیا تھا۔ اس نے یہ بھی حکم جاری کرنا چاہا تھا کہ کوئی شخص سیدنا امیر معاویہؓ کو بھلائی کے ساتھ یاد نہ کرے ورنہ مجرم قرار دیا جائے گا۔ مگر پھر اس حکم کو لوگوں کے سمجھانے سے جاری نہیں کیا۔ قرآن شریف کے پڑھنے کا بھی اس کو بہت شوق تھا۔ بعض رمضانوں میں اس نے روزانہ قرآن شریف ختم کیا ہے۔۱؎ مامون نے جب علی رضا کو ولی عہد بنایا تو بعض بنو عباس نے اس سے کہا کہ آپ امر خلافت علویوں کے سپرد نہ کریں۔ مامون نے جواب دیا