تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
آل عباس اور ہمدردان آل عباس اس بات کو کسی طرح برداشت ہی نہیں کر سکتے تھے‘ وہ جانتے تھے کہ عباسیوں سے خلافت کے نکالنے اور علویوں میں پہنچانے کی کوشش سب سے پہلے ابو مسلم نے کی‘ پھر یہی کوشش خاندان برامکہ نے کی جو مجوسی النسل تھے مگر وہ ناکام و نامراد رہے۔ اب ایک اور مجوسی النسل نے اس کوشش میں کامیابی حاصل کر لی‘ چونکہ اب اہل عرب اور اہل عجم کی تفریق بہت نمایاں ہو چکی تھی اور عام اہل عرب فضل بن سہل کو اپنا مخالف اور اہل عجم کا مربی یقین کرتے تھے۔ لہٰذا ہر ایک عربی النسل شخص نے علی رضا کی ولی عہدی کو اہل عجم کی کامیابی اور اپنی شکست تصور کیا۔ بغداد میں عربی عنصر زیادہ تھا اور آل عباس کا یہ خاص مقام تھا‘ یہاں اس خبر نے لوگوں کو اضطراب و بے چینی میں مبتلا کر کے غور و فکر اور مشوروں کی طرف متوجہ کر دیا۔ ایک طرف وہ ابھی تازہ تجربہ کر چکے تھے کہ بغاوت و سرکشی میں کیسے کیسے مصائب برداشت کرنے پڑے‘ دوسری طرف ان کے حزم و احتیاط نے عالم اسلام یعنی دوسرے اسلامی صوبوں اور ملکوں کی خبریں سننی ضروری سمجھیں کہ لوگوں پر علی رضا کی ولی عہدی کا کیا اثر نمودار ہوا ہے۔ بغداد میں یہ خبر ماہ رمضان ۲۰۱ھ میں پہنچی تھی اور پورے تین مہینے تک اہل بغداد نے کوئی اقدام نہیں کیا۔ اس عرصہ میں اس خیال کے اندر کہ خاندان عباسیہ سے نکل کر علویوں میں خلافت نہیں جا سکتی۔ ایک طاقت پیدا ہوتی گئی۔ ابراہیم بن مہدی کی خلافت ۲۵ ذی الحجہ ۲۰۱ھ کو آل عباس اور ہوا خواہان آل عباس نے ابراہیم بن مہدی کو خلافت کے لیے منتخب کر کے خفیہ طور پر اس کے ہاتھ پر بیعت کی اور یکم محرم ۲۰۲ھ کو علانیہ تمام اہل بغداد نے بیعت کر کے ابراہیم بن مہدی کو خلیفہ بنایا اور مامون کو خلافت سے معزول کر دیا۔ ابراہیم نے خلیفہ بنتے ہی چھ چھ مہینے کی تنخواہ لشکریوں کو بطور انعام دینے کا وعدہ کیا اور کوفہ و سواد پر قبضہ کر کے مدائن کی طرف بڑھا اور لشکر کی آراستگی میں مصروف ہوا‘ بغداد کی جانب غربی پر عباس بن موسیٰ کو اور جانب شرقی پر اسحٰق بن موسیٰ کو مامور کیا۔ حمید بن عبدالحمید حسن بن سہل کی طرف سے قصر ابن ہبیرہ میں مقیم تھا‘ وہ وہاں سے حسن بن سہل کے پاس گیا اور ابراہیم نے عیسیٰ بن محمد بن ابی خالد کو قصر ابن ہبیرہ پر قبضہ کرنے کے لیے بھیجا۔ چنانچہ عیسیٰ بن محمد نے قصر ابن ہبیرہ پر قبضہ کر کے حمید کے لشکر گاہ کو لوٹ لیا۔ حسن بن سہل نے عباس بن موسیٰ کاظم برادر علی رضا کو سند گورنری عطا کر کے کوفہ کی جانب روانہ کیا۔ عباس بن موسیٰ کاظم نے کوفہ میں پہنچ کر اعلان کیا کہ میرا بھائی علی رضا مامون کے بعد تخت خلافت کا مالک ہو گا‘ اس لیے اب تم لوگوں کو کہ محبان اہل بیت ہو ابراہیم بن مہدی کی خلافت تسلیم نہیں کرنی چاہیئے اور خلافت مامون الرشید کے خلاف کوئی حرکت مناسب نہیں ہے۔ اہل کوفہ نے عباس بن موسیٰ کاظم کی گورنری کو تسلیم کر لیا اور غالی شیعوں نے یہ کہہ کر کہ ہم تمھارے بھائی علی رضا کے معاون ہیں‘ مامون سے ہم کو کوئی واسطہ نہیں‘ بے تعلقی اور خاموشی اختیار کی۔ ابراہیم بن مہدی نے عباس بن موسیٰ کاظم کے مقابلہ پر سعید اور ابوالبط اپنے دو سپہ سالاروں کو مامور کیا۔ عباس نے علی بن محمد بن جعفر اپنے چچا زاد بھائی کو ان کے