تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
علیہ کی حیثیت سے قاضی کی عدالت میں حاضر ہونا اور ثبوت پیش کرنا پڑتا تھا۔ غیر مسلموں کے لیے انہیں کی قوم و مذہب کے منصف مقرر تھے جن کی کچہری میں ان کے مقدمات فیصل ہوتے تھے‘ ان غیر مسلم منصفوں کی عدالت میں غیر مسلموں کے تمام دیوانی اور آپس کے فوج داری مقدمات طے ہو جاتے تھے‘ لیکن اگر ایک فریق غیر مسلم ہو تو اس حالت میں فریقین رضا مندی سے جس عدالت میں چاہیں اپنا مقدمہ لے جائیں‘ لیکن ایسے مقدمات کو مرافعہ قاضی کے یہاں کیا جا سکتا تھا‘ عام طور پر غیر مسلم اپنے مقدمات بھی قاضی ہی کی عدالت میں فیصلہ کرانا چاہتے تھے اور ان کو کسی قسم کی شکایت نہ ہوتی تھی۔ سلطنت کے عام حالات حکومت کی طرف سے رعایا کے طرز زندگی اور آپس کے تعلقات میں قطعاً کوئی دخل نہیں دیا جاتا تھا‘ شہروں اور قصبوں کے اندرونی انتظامات بھی سب باشندگان شہر کے اختیار میں تھے‘ وہ خود ہی آپس میں آزادانہ اپنی حفاظت کی تدبیریں کرتے‘ اور اگر ایک عامل سے ناراض ہو جاتے تو اس کے وہاں سے تبدیل کرنے کی درخواست خلیفہ کی خدمت میں بھجواتے‘ اور خلیفہ عموماً ان کی درخواست منظور کر لیتا‘ اور کسی شہر کا عامل شہر والوں کی رضا مندی کے بغیر مقرر نہ کیا جاتا‘ ہر ایک شہر کے باشندے بجائے خود ایک فوجی طاقت رکھتے تھے‘ بسا اوقات ایسا ہوا ہے کہ کسی شہر کے عامل کا کسی فوج نے محاصرہ کر لیا ہے‘ وہ اپنی سرکاری فوج سے دشمن کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے‘ لیکن شہر والوں نے محاصر دشمن سے مصالحت کر لی ہے تو اس عامل کو مجبوراً شہر چھوڑ کر چلا جانا پڑا ہے۔ شہریوں کے حقوق کو پامال کرنے کی حکام کو عموماً جرأت نہ ہوتی تھی‘ معمولی سے معمولی آدمی بھی بڑے سے بڑے حاکم بلکہ خلیفہ تک پہنچ سکتا تھا اور جو کچھ اس کے جی میں آئے کہہ گذرتا تھا‘ خلفاء عموماً اپنے آپ کو ہر دل عزیز اور نافع الناس ثابت کرنے کی کوشش کرتے تھے‘ علوم و فنون کی قدردانی عام طور پر خلفاء عباسیہ نے بہت کی ہے۔ سفر کے لیے سہولتیں خلفاء عباسیہ نے عراق‘ حجاز‘ فارس‘ خراسان‘ موصل‘ شام وغیرہ میں راستوں کی حفاظت و نگرانی اور مسافروں کے امن و امان سے گذر جانے کے لیے معقول انتظام کیے تھے‘ فوجی دستے متعین تھے‘ جابجا تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر چوکیاں قائم تھیں‘ ہر ایک منزل پر شاہی گھوڑے‘ اونٹ اور دوسری سواریاں موجود رہتی تھیں‘ ایک مکان ہر منزل پر مسافروں کے ٹھہرنے اور آرام کرنے کے لیے ہوتا تھا‘ شاہی سواریوں پر جو محکمہ ڈاک کے ماتحت ہوتی تھیں کرایہ دے کر عام لوگ بھی سفر کے سکتے تھے‘ کبھی کبھی اگر کسی زبردست ڈاکو یا باغی کی وجہ سے راستے مخدوش ہو جاتے تو تجارتی قافلوں کے ساتھ شاہی فوج بھیجی جاتی تھی‘ اور حاجیوں کے قافلوں کے ساتھ جو شخص امیر حج ہو کر جاتا اس کے ساتھ ایک فوج بھی ہوتی تھی اور وہ حاجیوں کی حفاظت کرتا تھا۔ تجارت کے لیے سہولتیں ہر ایک شہر میں سوداگروں کی ایک انجمن ہوتی تھی جس میں کسی سرکاری آدمی کا شامل ہونا ضروری نہ تھا‘ سوداگر لوگ خود اشیاء کے نرخ قائم کرتے تھے‘ تجارتی مال پر چنگی بہت ہی کم لی جاتی تھی اور اس معاملہ میں تاجروں کو کبھی کوئی شکایت پیدا