تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
خلافت کے بعد بھی چوں کہ باقی رہے گا لہٰذا عبدالملک کے عنوان سے اس کی حکومت کے حالات سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کے بعد لکھے جائیں گے۔ حادثہ کربلا کے بعد سے جو زمانہ شروع ہوتا ہے وہ آئندہ ۲۰ سال تک عالم اسلام کے لیے ایسا ہی پر آشوب زمانہ ہے جیسا کہ ۶ھ سے ۴۰ھ تک کا زمانہ گذر چکا ہے‘ ہم اس وقت ایک نہایت خطرناک زمانہ کے حالات کا مطالعہ کر رہے ہیں‘ اس زمانہ کے حالات لکھنے میں کسی تسلسل زمانی کاقائم رکھنا بھی بے حد دشوار ہے۔ حالات کچھ ایسے پیچیدہ وژولیدہ ہیں کہ اگر ترتیب زمانی کا لحاظ ترک کر کے ان کی الگ الگ تقسیم کی جائے‘ تو یہ بھی ممکن نہیں ہے‘ تاہم میں نے کوشش کی ہے‘ کہ دوسری تاریخوں کے مقابلہ میں اس کتاب کے اندر ربط اور ترتیب زیادہ پائی جائے‘ پڑھنے والے کے دماغ پر بوجھ کم پڑے‘ اور حقیقت کا عکس دماغ میں عمدگی سے قائم ہو سکے۔ ابتدائی حالات اور خصائل آپ کا سلسلہ نسب اس طرح ہے‘ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما بن عوام بن خویلد بن اسد بن عبدالعزیٰ بن قصی‘ آپ کی کنیت ابو خبیب ہے‘ خود بھی صحابی ہیں اور صحابی کے بیٹے ہیں‘ آپ کے والد زبیر بن عوام عشرہ مبشرہ میں سے ہیں‘ آپ کی والدہ سیدنا اسماء رضی اللہ عنھا سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی بیٹی‘ اور سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کی بہن تھیں‘ آپ کی دادی سیدنا صفیہ رضی اللہ عنھا تھیں‘ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی پھوپھی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے مدینہ میں ہجرت کر کے تشریف لانے سے بیس مہینے کے بعد سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما پیدا ہوئے‘ آپ مدینہ منورہ میں مہاجرین کی سب سے پہلی اولاد ہیں‘ آپ کے پیدا ہونے سے مہاجرین میں غیر معمولی طور پر بہت خوشیاں منائی گئیں‘ کیوں کہ یہود ان نامسعود نے جب دیکھا‘ کہ ایک مدت تک مہاجرین کے کوئی اولاد مدینہ میں پیدا نہیں ہوئی‘ تو انہوں نے مشہور کر دیا تھا‘ کہ ہم نے جادو کر دیا ہے‘ اب مہاجرین کے کوئی اولاد پیدا نہ ہو گی‘ اسی لیے آپ کے پیدا ہونے سے جس طرح مسلمانوں کو خوشی ہوئی‘ اسی طرح یہودیوں کو رنج و ملال اور ذلت و ندامت حاصل ہوئی‘ پیدا ہونے کے بعد ہی آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں پیش کیا گیا‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کھجور اپنے منہ میں چبا کر آپ کو چٹائی۔ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما روزے بہت رکھتے اور نمازیں بھی بہت پڑھتے تھے‘ کبھی ساری ساری رات قیام میں‘ کبھی ساری ساری رات رکوع میں‘ کبھی ساری ساری رات سجدے میں پڑے رہتے تھے‘ صلہ رحمی کا آپ کو بہت خیال تھا‘ آپ بہت بڑے بہادر اور زبردست سپہ سالار تھے‘ آپ کی شہ سواری قریش میں ضرب المثل اور موجب افتخار تھی‘ آپ نہایت مستقل مزاج اور مصائب کے وقت قائم رہنے والے شخص تھے‘ آپ نہایت خوش تقریر اور جہیر الصوت تھے آپ کی آواز پہاڑوں سے جا کر ٹکرایا کرتی تھی۔ عمر بن قیس کہتے ہیں کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کے پاس سو غلام تھے جن میں سے ہر ایک کی زبان جدا جدا تھی‘ اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما ان میں سے ہر ایک کے ساتھ اسی کی زبان میں باتیں کیا کرتے تھے‘ ان ہی کا قول ہے کہ جب میں عبداللہ بن زبیر کو کوئی دین کا کام کرتے ہوئے دیکھتا تو خیال کرتا تھا‘ کہ ان کو کبھی ایک