تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
طغان ترکی کی ماتحتی میں ایک زبردست فوج فارس کی طرف روانہ کی‘ صمصام الدولہ سے متعدد لڑائیاں ہوئیں‘ صمصام الدولہ اور بہاء الدولہ کی لڑائیوں کا سلسلہ ۳۸۸ھ تک جاری رہا‘ کبھی یہ کامیاب ہوتا کبھی وہ‘ آخر ماہ ذی الحجہ ۳۸۸ھ میں نو برس فارس میں حکومت کرنے کے بعد صمصام الدولہ گرفتار ہو کر مقتول ہوا اور فارس پر بہاء الدولہ کا قبضہ ہو گیا۔ ۳۸۹ھ میں بہاء الدولہ خود فارس کے ملک میں گیا اور عراق کی حکومت ابو جعفر حجاج بن ہرمز کو سپرد کر کے بغداد میں چھوڑ گیا‘ خلیفہ قادر باللہ نے ابو جعفر کو عمید الدولہ کا خطاب دیا۔ اسی سال یعنی ۳۸۹ھ میں خاندان سامانیہ کے قبضہ سے ماوراء النہر کا بھی تمام علاقہ نکل گیا اور اس خاندان کا خاتمہ ہو گیا۔ ۳۸۴ھ میں خراسان ان کے قبضے سے نکل چکا تھا‘ بنو سامان کی سلطنت کے نصف حصہ پر تو بنی سبکتگین نے قبضہ کر لیا اور بقیہ نصف پر ترکوں کا قبضہ ہو گیا تھا جس کا مفصل حال بعد میں ذکر کیا جائے گا‘ چند روز کے بعد بغداد میں شیعوں اور سنیوں کے درمیان فساد برپا ہوا‘ بہاء الدولہ نے فارس میں یہ خبر سن کر عمید الدولہ کو عراق و بغداد کی حکومت سے معزول کر کے ۳۹۰ھ میں ابو علی حسن بن ہرمز کو عنان حکومت دے کر عمید الجیوش کا خطاب دیا۔ عمید الجیوش نے شیعہ سنی فساد کو مٹایا اور اچھا انتظام ملک کیا۔ ۳۹۱ھ میں عمید الجیوش کو معزول کر کے ابو نصر بن سابور کو عراق و بغداد کی حکومت سپرد کی‘ شیعہ سنیوں میں پھر فساد برپا ہوا‘ مگر چند روز کے بعد مصالحت ہو گئی۔ ۳۵۰ھ میں بہاء الدولہ کا انتقال ہوا اور اس کی جگہ اس کا بیٹا ابوشجاع حکومت کرنے لگا‘ خلیفہ قادر باللہ نے اس کو سلطان الدولہ کا خطاب دیا۔ سلطان الدولہ کی حکومت سلطان الدولہ نے جو اپنے باپ بہاء الدولہ کی وفات کے بعد مسند حکومت پر متمکن ہوا اپنے بھائی ابو الفوارس کو کرمان کی حکومت پر مامور کیا‘ کرمان میں ابو الفوارس کے پاس بہت سے دیلمی جمع ہوئے اور یہ مشورہ دیا کہ تم اپنے بھائی سلطان سے حکومت و ریاست چھین لو‘ چنانچہ ابو الفوارس نے کرمان سے فوج مرتب کر کے شیراز پر حملہ کر دیا۔ ادھر سے سلطان الدولہ نے مقابلہ کیا‘ جنگ عظیم کے بعد ابو الفوارس کو شکست ہوئی‘ سلطان الدولہ نے اس کا تعاقب کیا وہ کرمان واپس آ کر کرمان میں بھی نہ ٹھہر سکا‘ کیونکہ سلطان الدولہ کنے کرمان تک اس کا تعاقب کیا۔ کرمان سے ابو الفوارس سلطان محمود غزنوی بن سبکتگین کے دربار میں پہنچا‘ سلطان محمود غزنوی نے اس کی تشفی و تسلی کی اور اپنے ایک سردار ابو سعید طائی کو فوج دے کر اس کے ساتھ کر دیا‘ ابو الفوارس یہ امداد لے کر دوبارہ فارس پر حملہ آور ہوا‘ اس مرتبہ بھی سلطان الدولہ نے شکست دے کر بھگا دیا۔ اس مرتبہ شکست کھا کر ابو الفوارس سلطان محمود غزنوی کے پاس اس لیے نہیں گیا کہ اس نے ابو سعید طائی کے ساتھ اچھا برتائو نہیں کیا تھا‘ چنانچہ بعد شکست وہ مہذب الدولہ حاکم بطیحہ کے پاس گیا‘ پھر خط و کتابت کر کے سلطان الدولہ سے اپنی خطا معاف کرا کر کرمان کی حکومت پر دوبارہ مامور ہوا۔ ترکوں کا خروج