تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
گرفتار ہو کر آ گیا تو خلیفہ معتصم نے اپنے وزیراعظم محمد بن عبدالملک‘ قاضی احمد بن ابی دئواد‘ اسحاق بن ابراہیم اور دوسرے اراکین سلطنت کی ایک جماعت مرتب کر کے حکم دیا کہ تم سب مل کر افشین کے معاملہ کی تحقیقات کرو اور وہ جس سزا کا مستحق ہو وہی سزا اس کو دو۔ اگرچہ خلیفہ معتصم اپنے حکم سے اسے فوراً قتل کرا سکتا تھا۔ لیکن اس میں اندیشہ تھا کہ کہیں در پردہ بعض سردار اس کے شریک سازش نہ ہوں۔ لہٰذا اس نے یہ نہایت ہی عاقلانہ روش اختیار کی‘ اس طرح افشین کے قتل پر فوج میں کسی قسم کا جوش معتصم کے خلاف پیدا نہیں ہو سکتا تھا۔ معتصم افشین کی بد نیتی سے خوب واقف ہو چکا تھا اور جنگ بابک کے دوران ہی میں اس کو اس بات کی اطلاع ہو چکی تھی کہ افشین اپنے بیٹے کے پاس جس کو وہ پہلے سے اپنے وطن اشروسنہ کا عامل مقرر کرا چکا تھا شاہی مال و اسباب چرا کر اور چھپا کر بھجوا رہا ہے‘ لیکن اس وقت افشین ایک ایسے دشمن سے مقابلے پر معرکہ آرا تھا جو بیس سال سے مغلوب نہ ہو سکا تھا۔ لہٰذا معتصم بالکل خاموش رہا۔ جنگ بابک کی کامیابی کوئی معمولی کارنامہ نہ تھا۔ لہٰذا جنگ بابک کے بعد افشین کو انعام و اکرام سے محروم رکھنا اور اس کی بد دیانتی کا مواخذہ کرنا خود معتصم کے لیے زہر ہلاہل کا حکم رکھتا تھا۔ اور اس کی بدنامی و ناقدردانی کی شہرت کو کوئی طاقت نہیں روک سکتی تھی۔ نیز یہ کہ افشین کی نسبت اصلاح کی بھی توقع تھی۔ مگر جب افشین کے خطوط اور طرز عمل نے اس کی غداری کو ثابت کر دیا تو معتصم کے لیے یہی مناسب تھا جو اس نے کیا۔ وزیراعظم اور دوسرے سرداروں کی مجلس نے افشین کے مقدمہ کو بڑی احتیاط اور باقاعدگی کے ساتھ سننا اور تحقیق کرنا شروع کیا۔ قید خانے سے روزانہ افشین اس کچہری میں لایا جاتا اور اس کی موجودگی میں گواہوں کے بیانات ثبوت کے کاغذات پیش کیے جاتے تھے‘ مازیار جو اب تک قید میں تھا افشین کے سامنے لایا گیا اور افشین کے خطوط افشین کو دکھائے اور سنائے گئے۔ افشین نے سب کا اقرار کیا۔ اور مازیار نے بھی صاف صاف حقیقت بیان کر دی۔ پھر افشین کے متعلق وہ باتیں پیش ہوئیں جن سے اس کا منافق ہونا ثابت ہوا۔ مثلاً اس کا قرآن‘ مساجد اور آئمہ مساجد کی بے حرمتی کرنا‘ زردشتی صحیفوں کی روزانہ تلاوت کرنا اور ان کو ہمہ اوقات اپنے ساتھ رکھنا‘ اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی شان میں گستاخی کرنا اور بظاہر مسلمانوں میں شامل رہ کر نمازیں بھی ادا کرنا اور تمام شعائر اسلامی پر عامل رہنا۔ غرض نہایت پختہ‘ قطعی اور یقینی طور پر یہ بات ثابت ہو گئی کہ افشین دل سے مسلمان نہیں ہوا تھا بلکہ وہ مسلمانوں کو دھوکہ دینے اور حکومت اسلامیہ کا تختہ الٹ کر مجوسی سلطنت قائم کرنے کی تدابیر میں مصروف و منہمک تھا۔ اس مقدمہ کی سماعت نہایت اطمینان کے ساتھ ختم ہوئی اور آخری فیصلہ یہ ہوا کہ مازیار کو چار سو درے لگائے جائیں اور افشین کو سزائے موت دی جائے۔ چنانچہ مازیار چار سو درے برداشت نہ کر سکا اور اسی سزا سے مر گیا۔ افشین کو سولی دے دی گئی۔ اور اس کی لاش عبرت دلانے کے لیے منظر عام پر لٹکائی گئی۔ یہ واقعہ ماہ شعبان ۲۲۶ھ کو وقوع پذیر ہوا۔ افشین کی جگہ اسحٰق بن معاذ کو سپہ سالاری کی خدمت سپرد کی گئی۔ معتصم کی وفات افشین کے خطرے سے فراغت حاصل کرنے کے بعد خلیفہ معتصم باللہ نے اپنے ممالک مقبوضہ کی سرحدات کی جانب سے اطمینان حاصل کیا اور جب تحقیق ہو گئی کہ اب کسی