تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اسلحہ سازی‘ پارچہ بافی‘ قند سازی‘ دوا سازی‘ عطر سازی کے کارخانے بڑے بڑے شہروں میں قائم تھے اور حکومت کی طرف سے ان کی خوب ہمت افزائی ہوتی تھی‘ ریشمی اور اونی کپڑوں کے کارخانے اور بلور کے برتن بنانے کی صنعت خلفاء کی توجہ سے بہت ترقی پذیر ہوئی۔ خلیفہ کو اپنے خزانہ میں کئی کئی ہزار خلعت‘ دو شالے‘ اونی کپڑے‘ خوب صورت چادریں‘ اور بیش بہا تلواریں‘ برچھے‘ ڈھالیں‘ کمانیں وغیرہ محض اس لیے موجود رکھنے پڑتے تھے کہ یہ چیزیں بطور انعام اور بطور نشان عزت اعلیٰ درجہ کے بہادروں‘ عالموں‘ صناعوں اور موجدوں کو دیتا رہے‘ دوسرے ملکوں کی قیمتی اشیاء جو ان ملکوں کے سوداگر لے کر آتے تھے بڑی بڑی قیمتوں پر خلیفہ سب کو خرید لیتا اور اپنے خزانے اور توشہ خانے میں داخل کرتا تھا اور یہ سب چیزیں بطور انعام لوگوں کو دیتا رہتا تھا۔ فوجی انتظام فوج کی مجموعی تعداد ہر زمانے میں کم و زیادہ ہوتی رہی‘ بہت سے جیش تھے‘ ہر ایک جیش میں قریباً دس ہزار سپاہی ہوتے تھے‘ جیش کے افسر کو امیر الجیش کہتے تھے‘ امیر الجیش کے ماتحت دس قائد ہوتے تھے‘ ہر ایک قائد کے ماتحت ایک ایک ہزار سپاہی ہوتے تھے‘ ہر ایک قائد کے ماتحت دس نقیب ہوا کرتے تھے‘ ہر ایک نقیب سو سو سپاہیوں کا افسر ہوتا تھا‘ ہر ایک نقیب کے ماتحت دس عارف ہوتے تھے‘ ہر ایک عارف دس دس آدمیوں پر افسر ہوا کرتا تھا۔ فوج کی وردی میں کبھی کبھی خلفاء اپنے ذوق کے موافق تغیر و تبدل کر دیتے تھے‘ مثلاً معتصم نے ترکوں کی فوج کی وردی پر لیس ٹکوایا تھا‘ ہر ایک جیش کے ہمراہ ایک دستہ بان اندازوں کا ہوتا تھا‘ ایک کمپنی سفر مینا کی بھی ہوتی تھی جن کے پاس بیلچے اور کلہاڑیاں بھی ہوتی تھیں‘ بعض اوقات فوج کی وردی نہایت قیمتی کمخواب کی ہوتی تھی‘ بار برداری کے لیے اونٹوں اور خچروں کی کافی تعداد ہوتی تھی‘ پیدل فوج کے پاس نیزہ‘ تلوار اور ڈھال ہوتی تھی‘ یہ حربیہ کہلاتی تھی‘ جس پیدل فوج کے پاس تیغ و سپر کے علاوہ تیر کمان بھی ہوتی تھی اس کو رامیہ کہتے تھے‘ ہر ایک سپاہی کے سر پر خود‘ جسم میں چار آئینہ‘ ہاتھوں میں آہنی جوشن و دستانے اور پائوں میں موزے ہوتے تھے۔ ہر ایک جیش کے ہمراہ انجینئروں کی بھی ایک معقول تعداد ہوتی تھی‘ چند طبیب اور جراح بھی ضرور ہمراہ ہوتے تھے‘ دوائوں کا ذخیرہ‘ اور دوا سازی کا تمام سامان یعنی سفری شفا خانہ اور زخمیوں کے اٹھانے اور لانے کے لیے بار برداری کا سامان اور پالکیاں بھی ہوتی تھیں‘ ہر ایک جیش کے ہمراہ ایک رسالہ سواروں کا بھی ہوتا تھا‘ یہ سوار اعلیٰ درجہ کے نیزہ باز اور تیر انداز ہوتے تھے۔ جب خلافت میں ضعف آ گیا اور بنو بویہ مسلط ہوئے تو فوجی سرداروں کو جاگیریں دینے کا قاعدہ ایجاد ہوا کہ فوجی افسر خود اس قطعہ زمین کے محاصل سرکاری سے اپنی تنخواہیں وصول کر لیں‘ اس قاعدے کے جاری ہونے سے کاشت کاروں پر مظالم ہونے لگے۔ جب ترک یعنی سلجوق خلافت پر مسلط ہوئے تو انہوں نے تمام سلطنت اسلامیہ میں اپنے یہاں کے دستور کے موافق یہ قاعدہ جاری کیا کہ ہر ایک عامل اور ہر ایک والی کو ایک ایک سپہ سالار قرار دے کر اس حصہ ملک کی آمدنی کے اعتبار سے ایک معینہ تعداد کی فوج ہمہ اوقات تیار رکھنے کا ذمہ دار قرار دیا‘ یعنی فوجی سرداروں کو قطعات ملک دے