تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہزار میں بارہ ہزار لڑنے کے قابل مرد تھے۔ ۱۰ محرم ۲۲۰ھ کو عجیف بغداد میں داخل ہوا اور معتصم خود کشتی میں سوار ہو کر شمامہ کی جانب آیا اور گروہ زط کے اسیروں کا معائنہ کر کے حکم دیا کہ ان کو سرحد روم کی طرف مقام چشمہ زریہ کے قریب آباد کر دو‘ چنانچہ یہ اس طرف پہنچا دیئے گئے‘ وہاں یہ اتفاق پیش آیا کہ رومیوں نے موقعہ پا کر ان پر شب خون مارا اور سب کو قتل کر کے چلے گئے ایک کو بھی زندہ نہ چھوڑا اس طرح اس غارت گر گروہ زط کا خاتمہ ہو گیا۔ شہر سامرا خلیفہ معتصم ایک فوجی آدمی تھا اس کی توجہ فوج کی طرف زیادہ مبذول ہوئی۔ اس کے پیش رو خلفاء عباسیہ عام طور پر خراسانیوں کے زیادہ قدردان تھے اور انھوں نے عربی فوج پر بہت ہی کم اعتماد کیا تھا۔ اگرچہ خراسانیوں کی طرف سے بھی ان کو بار بار خطرے پیش آئے لیکن پھر بھی بحیثیت مجموعی انھوں نے اہل عرب کے مقابلے میں خراسانیوں اور ایرانیوں ہی پر زیادہ اعتماد کیا۔ لہٰذا فوج میں سے عربی عنصر کم ہوتے ہوتے بہت ہی کم ہو گیا تھا۔ معتصم باللہ نے فوج کی ترتیب و تنظیم کی جانب شروع ہی میں توجہ مبذول کی۔ اس نے ہزارہا ترکی غلام خریدے اور ان کی فوج تیار کی۔ اس نے فرغانہ و اشر و سنہ کے علاقوں سے ترکوں کو بھرتی کرایا۔ ان ترکوں کی جنگ جوئی و صعوبت کشی اس کو بہت پسند تھی۔ اب تک فوج میں عربی و ایرانی دو ہی قسم کے لوگ ہوتے تھے اور ترکوں سے برابر سرحد پر لڑائی جھگڑے برپا رہتے‘ کبھی ترک سردار باج گذار بن جاتے کبھی باغی ہو کر مقابلہ پر آتے اور فوجی طاقت سے مغلوب و محکوم بنائے جاتے‘ ان پر یہ اعتماد نہیں کیا گیا تھا کہ ان کو فوج میں بھرتی کیا جاتا۔ معتصم نے ان کو اپنی فوج میں اس کثرت سے بھرتی کیا اور ترکوں کو اس قدر فوجی عہدے دئیے کہ تعداد کے اعتبار سے بھی ترکی فوج ایرانی فوج کی مد مقابل بن گئی۔ عربی قبائل کم ہوتے ہوتے صرف مصر و یمن کے قبائل خلیفہ کی فوج میں باقی رہ گئے تھے۔ خلیفہ نے تمام عربی النسل دستوں کو ملا کر ایک الگ فوج تیار کی اور اس کا نام مغاربہ رکھا۔ سمر قند‘ فرغانہ و اشروسنہ کے ترکوں کی فوج جو سب سے زیادہ زبردست اور بڑی فوج تھی اس کا نام فراغنہ تجویز کیا۔ خراسانی لشکر کو لشکر فراغنہ سے رقابت پیدا ہوئی‘ خلیفہ معتصم نے چونکہ بڑے شوق سے ترکوں کی جدید فوج قائم کی تھی لہٰذا ہر قسم کی مراعات اسی فوج کو حاصل تھیں ان کی وردی بھی زیادہ قیمتی اور خوبصورت تھی۔ ان کے گھوڑے بھی زیادہ اچھے تھے۔ ان کی تنخواہیں اور وظیفے بھی دوسروں سے زیادہ تھے۔ اس لیے خراسانیوں نے بغداد میں ان سے لڑائی جھگڑے شروع کر دئیے۔ معتصم باللہ نے یہ رنگ دیکھ کر بغداد سے نوے (۹۰) میل کے فاصلے پر دجلہ کے کنارے نہر قاطون کے مخرج کے قریب لشکر فراغنہ کی چھائونی قائم کی‘ وہیں اس نے ایک قصر اپنے رہنے کے لیے تعمیر کیا‘ فوج کے لیے مکانات بنوائے‘ بازار و جامع مسجد وغیرہ تمام ضروری عمارات بنوا کر اور ترکوں کو آباد کر کے خود بھی اس نو تعمیر شہر میں چلا گیا۔ اس سرمن رائے رکھا جو کثرت استعمال سے سامرا مشہور ہو گیا۔ دارالخلافہ ہونے کی وجہ سے چند ہی روز میں سامرا کی رونق و آبادی بغداد کے مد مقابل بن گئی اور عربی و خراسانی عنصر کی بجائے ترکی عنصر دارالخلافہ اور خلیفہ پر